کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 69
کیا تو قبیلہ خزاعہ کی مکہ پر چڑھائی اور قبیلہ جرہم کی شکست نے عدنانی قبائل کو اطراف ملک میں پریشان و آوارہ کر کے حجاز میں بنی اسماعیل کے ابھرتے ہوئے زور کو سخت صدمہ پہنچایا، اور نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کے ہر حصہ اور ہر صوبہ میں عدنانی و قحطانی قبائل ایک دوسرے کے ہمسر و مد مقابل نظر آنے لگے اور اس طرح تمام جزیرہ نمائے عرب میں آزاد و مطلق العنان چھوٹے چھوٹے قبائل کے سوا کوئی بھی بڑی، اور قابل تذکرہ حکومت باقی نہ رہی۔ اگرچہ ملک عرب کی بڑی بڑی سلطنتیں بھی طائف الملوکی سے زیادہ حیثیت نہ رکھتی تھیں اور کسی عربی بادشاہ کی حکومت اپنی رعایا پر ایسی بھی نہ تھی کہ جیسی کہ فارس کے کسی معمولی سے جاگیر دار یا اہل کار کی باشندگان فارس پر ہوتی تھی۔ تاہم اس طائف الملوکی اور قبائل کی آزادی کے زمانہ میں ملک عرب کے اندر بدتمیز یوں ، ناہنجاریوں ، بد اخلاقیوں نے اور بھی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی اور یہ ترقی اپنی پوری تیز رفتاری اور زبردست طاقت کے ساتھ اس وقت تک جاری رہی جب تک کہ اس تاریک تر ملک عرب میں آفتاب اسلام طلوع ہوا۔ اہل عرب کی بڑی تعداد خانہ بدوشی کی حالت میں رہتی تھی اور بہت ہی تھوڑے لوگ تھے جو قصبوں اور آبادیوں میں مستقل سکونت رکھتے تھے۔ اہل عرب کو اپنے نسب کے سلسلے یاد اور محفوظ رکھنے کا بہت شوق تھا، آباء و اجداد کے ناموں اور کاموں کو وہ فخریہ بیان کرتے اور اسی ذریعہ سے لڑائیوں میں جوش اور بہادری دکھانے کا شوق پیدا ہوتا تھا، ملک کی آب و ہوا کا اثر تھا یا نسب دانی کے شوق کا نتیجہ تھا کہ اہل عرب کی قوت حافظہ بہت زبردست تھی کہ کئی کئی سو اشعار کے قصیدے ایک دو مرتبہ سن کر یاد کر لینا اور نہایت صحت کے ساتھ سنا دینا ان کے لیے معمولی بات تھی، شاعری اور قادر الکلامی کے عام شوق نے ان کی زبان کو اس قدر ترقی یافتہ حالت تک پہنچا دیا تھا کہ وہ بجا طور پر تمام غیر عرب کو عجم یعنی گونگا کہتے تھے۔ اگر کسی قبیلہ کا کوئی آدمی کسی دوسرے قبیلہ کے ہاتھ سے مارا جاتا تو جب تک تمام قبیلہ اس دوسرے قبیلہ سے اپنے مقتول کا بدلہ نہ لے لے چین سے نہ بیٹھتا تھا۔ قصاص نہ لینا اور خاموش ہو کر بیٹھ رہنا ان کے نزدیک بڑی بھاری بے عزتی کی بات سمجھی جاتی تھی، خانہ کعبہ کی عظمت اور بیت اللہ کا حج تمام قبائل عرب میں ہر زمانہ میں مروج رہا ہے۔ مظلوم کی مدد کرنا اور ظالم کے مقابلہ پر مستعد ہو جانا بھی ان میں ایک خوبی سمجھی جاتی تھی، بزدلی اور کنجوسی کو وہ سب سے بڑا عیب جانتے تھے۔ امن کے مہینے : انہوں نے سال میں ایک یا کئی مہینے ایسے بھی مقرر کر رکھے تھے، جن میں لڑائی کو جائز نہیں سمجھتے