کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 688
اورمیرے باپ معاویہ رضی اللہ عنہ میں جھگڑا ہوا، اسی طرح میرے اور سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے درمیان نزاع ہوا، علی رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ دونوں کہتے تھے کہ جس کے باپ دادا اچھے ہوں وہ خلیفہ ہو، اور قرآن شریف کی اس آیت پر انہوں نے غور نہیں فرمایا کہ ﴿قُلِ الّٰلہُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ﴾ آخر سب کو معلوم ہو گیا کہ خدائے تعالیٰ نے ہمارے حق میں فیصلہ کیا، یا ان کے حق میں ۔ اس کے بعد ان قیدیوں کو آزادی دے کر بطور معزز مہمان اپنے محل میں رکھا، عورتیں اندر عورتوں میں گئیں ، تو انہوں نے دیکھا کہ یزید کے محل سرا میں بھی اسی طرح ماتم برپا ہے اور سب عورتیں رو رہی ہیں ، جس طرح سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی بہن اپنے بھائی اور عزیزوں کے لیے رو رہی تھیں ، چند روز شاہی مہمان رہ کر یہ برباد شدہ قافلہ مدینہ کی طرف روانہ ہوا۔ یزید نے ان کو ہر قسم کی مالی امداد دی اور علی بن حسین رضی اللہ عنہ سے ہر قسم کی امداد کا وعدہ کیا کہ جب تم لکھو گے تمہاری فرمائش کی ضرور تعمیل کی جائے گی۔ عبیداللہ بن زیاد کی مایوسی: عبیداللہ بن زیاد کو توقع تھی کہ قتل حسین رضی اللہ عنہ کے بعد میری خوب قدر دانی ہو گی۔ لیکن یزید نے واقعہ کربلا کے بعد سلم بن زیاد کو خراسان کا حاکم مقرر کر کے ایران کے بعض وہ صوبے بھی جو بصرہ سے تعلق رکھتے تھے مسلم کے ماتحت کر کے اس کو کوفہ کی جانب روانہ کیا اور ایک خط عبیداللہ بن زیاد کے نام لکھ کر دیا کہ تمہارے پاس عراق کی جس قدر فوج ہے اس میں سے چھ ہزار آدمی جس کو سلم پسند کرے اس کے ساتھ کر دو، عبیداللہ کو یہ بات ناگوار گزری اور امام حسین رضی اللہ عنہ کے قتل پر افسوس کرنے لگا کہ اگر وہ زندہ ہوتے تو یزید کو میری احتیاج رہتی اور وہ میری عزت و مرتبہ بڑھانے میں کمی نہ کرتا، لیکن اب وہ بے فکر ہو گیا ہے، اسی لیے اس نے ملک اور فوج دونوں میرے تصرف سے نکالنی شروع کر دیں ۔ سلم نے جب لشکر کوفہ کی موجودات لے کر سرداران لشکر سے کہا کہ تم میں سے کون کون میرے ہمراہ خراسان کی طرف چلنا چاہتا ہے، تو ہر ایک شخص نے جانے کی خواہش ظاہر کی، عبیداللہ بن زیاد نے رات کے وقت سرداران لشکر کے پاس آدمی بھیجا اور کہا کہ تعجب ہے کہ تم سلم کو میرے اوپر ترجیح دیتے ہو، سرداران لشکر نے جواباً کہلا بھیجوایا کہ آپ کے پاس رہ کر تو اہل بیت نبوی کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے پڑتے ہیں لیکن سلم کے ساتھ جا کر ہم کو ترکوں اور مغلوں کے ساتھ جہاد کرنے کا موقع ملے گا۔ اگلے دن سلم ۶ ہزار چیدہ آدمی لشکر کوفہ سے لے کر خراسان کی طرف روانہ ہوا اور عبیداللہ بن زیاد کو واقعہ کربلا کے