کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 687
شروع میں آپ گھوڑے پر سوار ہوکر حملہ آور ہوتے رہے تھے، لیکن جب گھوڑا مارا گیا، تو پھر پیدل لڑنے لگے، دشمنوں میں کوئی شخص یہ نہیں چاہتا تھا، کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ میرے ہاتھ سے شہید ہوں ، بلکہ ہر شخص آپ کے مقابلہ سے بچتا اور طرح دیتا تھا، آخر شمر ذی الجوشن نے چھ شخصوں کو ہمراہ لے کر آپ پر حملہ کیا، ان میں سے ایک نے شمشیر کا ایسا وار کیا کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کا بایاں ہاتھ کٹ کر الگ گر پڑا، سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اس پر جوابی وار کرنا چاہا لیکن آپ کا داہنا ہاتھ بھی اس قدر قبیح و مجروح ہو چکا تھا کہ تلوار نہ اٹھا سکے، پیچھے سے سنان بن انس نخعی نے آپ کے نیزہ مارا جو شکم پار ہو گیا، آپ نیزہ کا یہ زخم کھا کر گئے، اس نے نیزہ کھینچا اور اس کے ساتھ ہی آپ کی روح بھی کھینچ گئی۔ انا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون اس کے بعد شمر نے یا شمر کے حکم سے دوسرے شخص نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر جسم سے جدا کیا اورعبیداللہ بن زیاد کے حکم کی تعمیل کے لیے بارہ سوار متعین کیے گئے، ان سے گھوڑے کی ٹاپوں سے آپ کے جسد مبارک کو خوب کچلوایا، پھر خیمہ کو لوٹا، آپ کے اہل بیت کو گرفتار کیا، زین العابدین جو لڑکے تھے، شمر ذی الجوشن کی نظر پڑی تو ان کو اس نے قتل کرنا چاہا، مگر عمرو بن سعد نے اس کو اس حرکت سے باز رکھا۔ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک اور آپ کے اہل بیت کوفہ میں ابن زیاد کے پاس بھیجے گئے، کوفہ میں ان کو تشہیر کیا گیا، ابن زیاد نے دربار کیا اور ایک طشت میں رکھ کر امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر اس کے سامنے پیش ہوا، اس نے اس سر کو دیکھ کر گستاخانہ کلمات کہے۔ پھر تیسرے روز شمر ذی الجوشن کو ایک دستہ فوج دے کر اس کی نگرانی میں یہ قیدی اور سر مبارک یزید کے پاس دمشق کی جانب روانہ کیا۔ علی بن حسین یعنی سیّدنا زین العابدین اور تمام عورتیں جب یزید کے پاس پہنچے اور سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک اس نے دیکھا تو وہ سر دربار رو پڑا اور عبیداللہ بن زیاد کو گالیاں دے کر کہنے لگا کہ اس پسر سمیہ کو میں نے یہ حکم کب دیا تھا کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو قتل کر دینا، پھر شمر ذی الجوشن اور عراقیوں کی طرف مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ میں تمہاری اطاعت و فرماں برداری سے ویسے ہی خوش تھا، تم نے حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو کیوں قتل کیا، شمر ذی الجوشن اور اس کے ہمراہی اس توقع میں تھے کہ یزید ہم کو انعام دے گا اور ہماری عزت بڑھائے گا مگر یزید نے کسی کو کوئی انعام و صلہ نہیں دیا اور اپنی ناخوشی و ناراضی کا اظہار کر کے سب کو واپس لوٹا دیا۔ پھر درباریوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی ماں میری ماں سے اچھی تھیں ان کے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام رسولوں سے بہتر اور اولاد آدم کے سردار ہیں ، لیکن ان کے باپ علی رضی اللہ عنہ