کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 686
رہی اور اس میں کوفیوں کے زیادہ آدمی مارے گئے، پھر اس کے بعد سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک ایک آدمیوں نے کوفیوں کی صفوں پر حملہ کرنا شروع کیا، اس طرح بہت سے آدمیوں کا نقصان ہوا۔ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے ہمرائیوں نے آل ابی طالب کو اس وقت تک میدان میں نہ نکلنے دیا، جب تک کہ وہ ایک ایک کر کے سب کے سب نہ مارے گئے، آخر میں مسلم بن عقیل کے بیٹوں نے آل ابی طالب پر سبقت کی، ان کے بعد سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے بیٹے علی اکبر رضی اللہ عنہ نے دشمنوں پر بہادرانہ حملے کیے اور بہت سے دشمنوں کو ہلاک کرنے کے بعد خودبھی شہید ہو گئے، ان کے قتل ہونے کے بعد سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ سے ضبط نہ ہو سکا اور آپ رونے لگے، پھر آپ کے بھائی عبداللہ و محمد و جعفر و عثمان نے دشمنوں پر حملہ کیا اور بہت سے دشمنوں کو مار کر خود بھی ایک ہی جگہ ڈھیر ہو گئے، آخر میں سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کے ایک نو عمر بیٹے محمد قاسم نے حملہ کیا اور وہ بھی مارے گئے۔ غرض کہ حسین رضی اللہ عنہ کے لیے کربلا میں اپنی شہادت اور دوسری تمام مصیبتوں سے بڑھ کر مصیبت یہ تھی کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے اپنے بھائیوں اور بیٹوں کو شہید ہوتے ہوئے، اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو ان روح فرسانظاروں کاتماشا دیکھتے ہوئے دیکھا، سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ہمرائیوں اور خاندان والوں نے ایک طرف اپنی بہادری کے نمونے دکھائے، تو دوسری طرف وفاداری و جاں نثاری کی بھی انتہائی مثالیں پیش کر دیں ، نہ کسی شخص نے کمزوری و بزدلی کا اظہار کیا، نہ بیوفائی و تن آسانی کا الزام اپنے اوپر لیا، سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ سب سے آخر تنہا رہ گئے تھے، خیمہ میں عورتوں کے سوا صرف علی بوسط معروف بہ زین العابدین جو بیمار اور چھوٹے بچے تھے باقی رہ گئے، عبیداللہ بن زیاد ظالم نے یہ بھی حکم بھیج دیا تھا کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک کاٹ کر ان کی لاش گھوڑوں سے یہاں تک پامال کرائی جائے کہ ہر ایک عضو ٹوٹ جائے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت: سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے تنہا رہ جانے کے بعد جس بہادری و جواں مردی کے ساتھ دشمنوں پر حملے کیے ہیں ان حملوں کی شان دیکھنے والا ان کے ہمرائیوں میں کوئی نہ تھا، مگر عمرو بن سعد اور شمر ذی الجوشن آپس میں ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ ہم نے آج تک ایسا بہادر و جری انسان نہیں دیکھا، اس غم کی داستان اورروح کو مضمحل کر دینے والی کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے جسم پر پینتالیس زخم تیر کے تھے، مگر آپ برابر دشمنوں کا مقابلہ کیے جا رہے تھے، ایک دوسری روایت کے موافق ۳۳ زخم نیزے کے اور ۴۳ زخم تلوار کے تھے اور تیروں کے زخم اس کے علاوہ تھے۔