کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 685
سمجھتے اور تمہارے ہاتھ پر بیعت خلافت کرنا چاہتے ہیں ، جب تمہارے بلانے کے موافق میں یہاں آیا تو اب تم مجھ سے برگشتہ ہو گئے، اب بھی اگر تم میری مدد کرو، تو میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ مجھ کو قتل نہ کرو اور آزاد چھوڑ دو تاکہ میں مکہ یا مدینہ میں جا کر مصروف عبادت ہو جاؤں اور اللہ تعالیٰ خود اس جہان میں فیصلہ کر دے گا کہ کون حق پر تھا اور کون ظالم تھا۔‘‘ اس تقریر کو سن کر سب خاموش رہے اور کسی نے کوئی جواب نہ دیا، تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں نے تم پر حجت پوری کر دی، اور تم کوئی عذر پیش نہیں کر سکتے۔ پھر آپ نے ایک ایک کا نام لے کر آواز دی کہ ’’اے شبت بن ربیعی، اے حجاج بن الحسن، اے قیس بن الاشعت، اے حر بن یزید تمیمی، اے فلاں و فلاں کیا تم نے مجھ کو خطوط نہیں لکھے تھے اور مجھ کو باصرار یہاں نہیں بلوایا تھا، اب جب کہ میں یہاں آیا ہوں ، تو تم مجھ کو قتل کرنے پر آمادہ ہو۔ یہ سن کر ان سب لوگوں نے کہا کہ ہم نے آپ کو کوئی خط نہیں لکھا اور نہ آپ کو بلایا، سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے وہ خطوط نکالے اور الگ الگ پڑھ کر سنائے کہ یہ تمہارے خطوط ہیں انہوں نے کہا کہ خواہ ہم نے یہ خطوط بھیجے ہیں یا نہیں بھیجے، مگر اب ہم علی الاعلان آپ سے اپنی بیزاری کا اظہار کرتے ہیں ، یہ سن کر حسین رضی اللہ عنہ اونٹ سے اترے اور گھوڑے پر سوار ہو کر لڑائی کے لیے مستعد ہو گئے۔ کوفی لشکر سے اوّل ایک شخص میدان میں مقابلہ کی غرض سے نکلا، مگر اس کا گھوڑا ایسا بدکا کہ وہ گھوڑے سے گرا اور مر گیا، اس کیفیت کو دیکھ کر حربن یزید تمیمی اس انداز سے جیسے کوئی حملہ آور ہوتا ہے اپنی ڈھال سامنے کر کے اور گھوڑا دوڑا کر حسین رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ڈھال پھینک دی، سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تو کس لیے آیا ہے، اس نے کہا کہ میں وہ شخص ہوں ، جس نے آپ کو ہر طرف سے گھیر کر اور روک کر واپس نہ جانے دیا اور اس میدان میں قیام کرنے پر مجبور کیا میں اپنی اس خطا کی تلافی میں اب آپ کی طرف سے کوفیوں کا مقابلہ کروں گا، آپ میرے لیے مغفرت کی دعا کریں ، حسین رضی اللہ عنہ نے اس کو دعا دی اور بہت خوش ہوئے۔ شمر ذی الجوشن نے عمرو بن سعد سے کہا کہ اب دیر کیوں کر رہے ہو، عمرو بن سعد نے فوراً ایک تیر کمان جوڑ کر سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے لشکر کی طرف پھینکا اور کہا کہ تم گواہ رہنا کہ سب سے پہلا تیر میں نے چلایا ہے، اس کے بعد کوفیوں کے لشکر سے دو آدمی نکلے، سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک بہادر نے مقابلہ پر جا کر دونوں کو قتل کر دیا، پھر اسی طرح لڑائی کا سلسلہ جاری ہوا، دیر تک مبارزت کی لڑائی ہوتی