کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 684
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اپنے ہمرائیوں کومناسب مقامات پر کھڑا کر کے اور ضروری وصیتیں فرما کر اونٹ پر سوارہوئے، اور کوفی لشکر کی صفوف کے سامنے تنہا گئے، ان لوگوں کو بلند آواز سے مخاطب ہو کر کے ایک تقریر شروع کی اور فرمایا کہ۔
اے کوفیو! میں خوب جانتا ہوں کہ یہ تقریر کوئی نتیجہ میرے لیے اس وقت پیدا نہ کرے گی اور تم کو جو کچھ کرنا ہے تم اس سے باز نہ آؤ گے، لیکن میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی حجت تم پر پوری ہو جائے اور میرا عذر بھی تم پر ظاہر ہو جائے۔
ابھی اسی قدر الفاظ کہنے پائے تھے، کہ آپ کے خیموں سے عورتوں اور بچوں کے رونے کی آوازیں بلند ہوئیں ، ان آوازوں کے سننے پر آپ کو سخت ملال ہوا اور سلسلہ کلام کو روک کر اور لاحول پڑھ کر آپ نے کہا۔ کہ عبداللہ بن عباس مجھ سے سچ کہتے تھے کہ عورتوں اور بچوں کو ہمراہ نہ لے جاؤ، مجھ سے غلطی ہوئی کہ میں نے ان کے مشورے پر عمل نہ کیا، پھر لوٹ کر اپنے بھائی اور بیٹوں کو پکار کر کہا کہ ان عورتوں کو رونے سے منع کرو اور کہو کہ اس وقت خاموش رہو، کل خوب دل بھر کر رو لینا، انہوں نے عورتوں کو سمجھایا اور وہ آوازیں بند ہوئیں ، سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے پھر کوفیوں کی طرف متوجہ ہو کر اپنی تقریر اس طرح شروع کی’’لوگو! تم میں سے ہر ایک شخص جو مجھ سے واقف ہے اور ہر ایک وہ شخص بھی جو مجھ کو نہیں جانتا، اچھی طرح آگاہ ہو جائے، کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نواسا اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا بیٹا ہوں ، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا میری ماں اور جعفر طیار رضی اللہ عنہ میرے چچا تھے، اس فخر نسبی کے علاوہ مجھ کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ اور میرے بھائی حسن رضی اللہ عنہ کو جوانان اہل جنت کا سردار بتایا ہے، اگر تم کو میری بات کا یقین نہ ہو تو ابھی تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے صحابیؓ زندہ ہیں تم ان سے میری اس بات کی تصدیق کر سکتے ہو، میں نے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی، میں نے کبھی نماز قضا نہیں کی اور میں نے کسی مومن کو قتل نہیں کیا اور نہ آزار پہنچایا، اگر عیسیٰ علیہ السلام کا گدھا بھی باقی ہوتا تو تمام عیسائی قیامت تک اس گدھے کی پرورش اور نگہداشت میں مصروف رہتے، تم کیسے مسلمان اورکیسے امتی ہو کہ اپنے رسول کے نواسے کو قتل کرنا چاہتے ہو، نہ تم کو اللہ تعالیٰ کا خوف ہے، نہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شرم ہے، میں نے جب کہ ساری عمر کسی شخص کو بھی قتل نہیں کیا تو ظاہر ہے کہ مجھ پر کسی کا قصاص بھی نہیں ، پھر تم بتاؤ کہ تم نے میرے خون کو کس طرح حلال سمجھ لیا ہے، میں دنیا کے جھگڑوں سے آزاد ہو کر مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں پڑا تھا، تم نے وہاں بھی مجھ کو نہ رہنے دیا، پھر مکہ معظمہ کے اندر بیت اللہ میں مصروف عبادت تھا، تم کوفیوں نے مجھ کو وہاں بھی چین نہ لینے دیا اورمیرے پاس مسلسل خطوط بھیجے کہ ہم تم کو امارت کاحق دار