کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 683
آکر فرمایا کہ واقعی بچوں اور عورتوں کو ہمراہ لانے میں ہم سے بڑی غلطی ہوئی ہے، ان کو ہر گز ہمراہ نہ لانا چاہیے تھا۔ اس کے بعد سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام ہمراہیوں کو اپنے سامنے بلا کر کہا کہ تم لوگ یہاں سے جس طرف مناسب سمجھو چلے جاؤ، تم کو کوئی کچھ بھی نہیں کہے گا، کیونکہ دشمن کو صرف میری ذات سے بحث ہے، تمہارے چلے جانے کو تو وہ غنیمت سمجھیں گے۔ میں تم سب کو اجازت دیتا ہوں کہ اپنی اپنی جان بچا لو، ہمرائیوں نے یہ سن کر کہا کہ ہم ہر گز ہر گز آپ کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے، ہم سب آپ کے اوپر قربان ہو جائیں گے اور جب تک ہمارے دم میں دم ہے آپ کو آزار نہ پہنچنے دیں گے۔ اسی شب تھوڑی دیر کے بعد ایک شخص طراح بن عدی جو اس نواح میں آیا ہوا تھا، سیّدنا حسین رضی اللہ عنہما اور ابن سعد کے لشکروں کا حال سن کر امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ تنہا میرے ساتھ چلیں ، میں آپ کو ایک ایسے راستے سے لے چلوں گا کہ کسی کو مطلق اطلاع نہ ہو سکے گی اور آپ کو قبیلہ بنی طے میں لے جا کر پانچ ہزار آدمی اپنے قبیلے کے آپ کی خدمت میں پیش کروں گا، آپ ان پانچ ہزار سے جو چاہیں کام لیں ، امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے ابھی ان سب سے کہا تھا کہ مجھ کو تنہا چھوڑ کر تم سب چلے جاؤ، انہوں نے اس بات کو گوارا نہیں کیا، اب یہ کیسے ممکن ہے کہ میں ان سب کو چھوڑ کر تنہا اپنی جان بچا کر نکل جاؤں ، ان کے ہمرائیوں نے کہا کہ ہم لوگوں کو تو وہ کچھ کہیں گے نہیں ، جیسا کہ آپ ابھی فرما چکے ہیں ، وہ تو تنہا آپ کے دشمن ہیں ، لہٰذا آپ اپنی جان بچانے کے لیے نکل جائیں ، سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عزیزوں اور قریبی رشتہ داروں کے بغیر کوئی چیز بھی گوارا نہیں ہوسکتی، میں آپ لوگوں کی معیت کے اپنی جان بچانے کے لیے ہر گز نہ جاؤں گا، چنانچہ اس شخص کو شکریہ کے ساتھ واپس کر دیا۔ جب صبح ہوئی تو شمر ذی الجوشن اور عمرو بن سعد صفوف لشکر کو آراستہ کر کے میدان میں آئے، سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے ہمرائیوں کو مناسب ہدایات دے کر متعین کیا، شمر ذی الجوشن نے عبیداللہ، جعفر، عثمان، عباس کو میدان میں بلوا کر کہا کہ تم کو امیر زیاد نے امان دے دی ہے، انہوں نے کہا کہ ابن زیاد کی امان سے اللہ کی امان بہتر ہے، شمر اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔ بعض روایات کے موافق آپ کے ہمراہ اس وقت جب کہ لڑائی ۱۰ محرم ۶۱ھ کی صبح کو شروع ہوئی ہے، بہتر آدمی موجود تھے، بعض روایات کے موافق ایک سو چالیس اور بعض کے موافق دوسو چالیس تھے، بہرحال اگر بڑی سے بڑی تعداد یعنی دو سو چالیس بھی تسلیم کر لیں تو دشمنوں کی ہزارہا جرار فوج کے مقابلے میں سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھی کوئی حقیقت نہ رکھتے تھے۔