کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 681
بڑھاؤ، اب تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ فوراً بلاتامل خط پڑھتے ہی یا تو حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو میرے پاس لاؤ، ورنہ جنگ کر کے ان کا سر کاٹ کر بھیجو، اگر ذرا بھی تامل تم سے سرزد ہوا تو میں نے اپنے سر ہنگ کو جو یہ خط لے کر آرہا ہے، حکم دیا ہے کہ وہ تم کو گرفتار کر کے میرے پاس پہنچائے اور لشکر وہیں مقیم رہ کر دوسرے سردار کا منتظر رہے، جس کو میں تمہاری جگہ مامور کر کے بھیجوں گا۔‘‘ جویرہ یہ خط لے کر جمعرات کے دن ۹ محرم ۶۱ھ کو ابن سعد کے پاس پہنچا، ابن سعد اس وقت اپنے خیمہ میں بیٹھا تھا، خط پڑھتے ہی کھڑا ہو گیا اور گھوڑے پر سوار ہو کر لشکر کو تیاری کا حکم دیا اور جویرہ بن بدر سے کہا کہ تم گواہ رہنا کہ میں نے امیر کا حکم پڑھتے ہی اس کی تعمیل کی ہے، پھر صفوف جنگ آراستہ کر کے جویرہ کو ہمراہ لے کر آگے بڑھا اور سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو سامنے بلوا کر کہا کہ امیر ابن زیاد کا حکم آیا ہے اگر میں اس کی تعمیل میں ذرا بھی دیر کروں تو یہ قاصد موجود ہے، جس کو حکم دیا گیا ہے کہ فوراً مجھ کو قید کر لے۔ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھ کو کل تک کے لیے اور سوچنے کی مہلت دو، ابن سعد نے جویرہ کی طرف دیکھا، اس نے کہا کہ کل کچھ دور نہیں ہے، اتنی مہلت دے دینی چاہیے، ابن سعد میدان سے واپس آیا اور فوج کو حکم دیا کہ کمر کھول دو، آج کوئی لڑائی نہ ہو گی۔ عبیداللہ بن زیاد نے جویرہ بن بدر کے ہاتھ یہ حکم روانہ کرنے کے بعد سوچا، اگر ابن سعد نے سستی کی اور جویرہ نے اس کو قید کر لیا تو فوج بغیر افسر منتشر ہو جائے گی اور ممکن ہے کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ ہی سے جا ملے، اس صورت میں ضرور وقت و پریشانی کا سامنا ہو گا اور امام حسین رضی اللہ عنہ کو موقع مل جائے گا کہ وہ مکہ کی طرف فرار ہو جائیں اور قابو میں آئے ہوئے نکل جائیں ، چنانچہ اس نے فوراً شمرذی الجوشن کو بلوایا اور کہا کہ میں جویرہ کو بھیج چکا ہوں اور اس کو حکم دے دیا ہے کہ اگر ابن سعد لڑائی میں تامل کرے تو اس کو گرفتار کر کے لے آئے، ابن سعد کی طرف سے مجھ کو منافقت کا شبہ ہے، اگر ابن سعد کو جویرہ نے گرفتار کر لیا تو فوج جو میدان میں پڑی ہوئی ہے، سب آوارہ اور ضائع ہو جائے گی، میں تجھ سے بہتر اس کام کے لیے دوسرا شخص نہیں پاتا، تو میدان کربلا کی طرف جا اور ابن سعد گرفتار ہو چکا ہو تو فوج کی کمان اپنے ہاتھ میں لے اور سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ سے لڑ کر ان کا سر کاٹ لا، اگر ابن سعد گرفتار نہ ہوا ہو اور لڑائی میں تامل کر رہا ہو تو فوراً جاتے ہی لڑائی چھیڑ دے اور کام کو جلدی ختم کر دے، شمرذی الجوشن نے کہا کہ میری ایک شرط ہے، وہ یہ کہ آپ کو معلوم ہے کہ میری بہن ام نسبین بنت حرام سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیوی تھی، جس کے بطن سے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے چار بیٹے عبیداللہ، جعفر، عثمان، عباس پیدا ہوئے، میرے یہ بھانجے بھی اپنے بھائی حسین رضی اللہ عنہ کے ہمراہ میدان کربلا میں موجود ہیں ، آپ ان چاروں کو جان کی امان دے دیں ، عبیداللہ