کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 680
باتوں کے متعلق نہیں دے سکتا، ابھی عبیداللہ بن زیاد کو اطلاع دیتا ہوں ، یقین ہے کہ وہ ضرور ان میں سے کسی ایک بات کو منظور کر لے گا، عمرو بن سعد بھی اسی میدان میں خیمہ زن ہو گیا اور ابن زیاد کو یہ تمام کیفیت لکھ کر بھیجی۔ ۲ محرم ۶۱ھ کو کربلا میں عمرو بن سعد امام حسین رضی اللہ عنہ کے پہنچنے سے اگلے دن جا کر مقیم ہوا تھا اور اسی روز یہ گفتگو ہوئی تھی، عبیداللہ بن زیاد عمرو بن سعد کا خط پڑھ کر بہت خوش ہوا اور اس نے کہا کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے وہ بات کی ہے، جس سے فتنہ کا دروازہ بالکل بند ہو جائے گا اور وہ یزید کے پاس جا کر بیعت کر لیں گے تو پھر کوئی خطرہ باقی ہی نہ رہے گا۔ لیکن شمرذی الجوشن اس وقت اس کے پاس موجود تھا اس نے کہا اے امیر اس وقت تجھ کو موقع حاصل ہے کہ تو سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو بلا تکلف قتل کر دے، تجھ پر کوئی الزام عائد نہ ہو گا۔ لیکن اگر سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ یزید کے پاس چلے گئے، تو پھر ان کے مقابلہ میں تیری کوئی عزت و قدر باقی نہ رہے گی اور وہ تجھ سے زیادہ مرتبہ حاصل کر لیں گے، یہ سن کر ابن زیاد نے عمرو بن سعد کو جواب میں لکھا کہ’’یہ تینوں باتیں کسی طرح منظور نہیں ہو سکتیں ، ہاں صرف ایک صورت قابل پذیرائی ہے، وہ یہ کہ امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے آپ کو ہمارے سپرد کر دیں اور یزید کی بیعت اوّل نیابتاً میرے ہاتھ پرکریں ، پھر میں ان کو یزید کے پاس اپنے اہتمام سے روانہ کروں گا۔‘‘ اس جواب کے آنے پر عمرو بن سعد نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی اور کہا کہ میں مجبور ہوں ، ابن زیاد خلافت یزید کی بیعت اوّل اپنے ہاتھ میں چاہتا ہے اورکسی دوسری بات کو منظور نہیں کرتا، امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس سے تو مر جانا بہتر ہے کہ میں ابن زیاد کے ہاتھ پر بیعت کروں ۔ ابن سعد اس کوشش میں مصروف تھا کہ کسی طرح کشت و خون نہ ہو، یا سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ ہی ابن زیاد کی شرط مان لیں ، یا ابن زیاد سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی منشاء کے موافق ان کو جانے کی اجازت دے دے۔ اس خط و کتابت اور انکار واصرار میں ایک ہفتہ تک سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ابن سعد دونوں اپنے اپنے ہمرائیوں کے ساتھ کربلا کے میدان میں خیمہ زن رہے، سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھی ابن سعد کے لشکریوں کے ساتھ مل کر نمازیں پڑھتے اور سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ صفوں کو درست کرتے، ابن زیاد کے پاس جب یہ خبر پہنچی تو اس کو فکر پیدا ہوئی کہ کہیں ابن سعد امام حسین رضی اللہ عنہ سے سازش نہ کرے، اس نے فوراً ایک چوب دار جویرہ بن تمیمی کو بلایااور ابن سعد کے نام ایک خط لکھ کر دیا کہ’’میں نے تم کو حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی گرفتاری پر مامور کیا تھا، تمہارا فرض تھا کہ ان کو گرفتار کر کے میرے پاس لاتے یا گرفتار نہ کر سکتے تو ان کا سر کاٹ کر لاتے، میں نے تم کو یہ حکم نہیں دیا تھا کہ تم ان کی مصاحبت اختیار کر کے دوستانہ تعلقات