کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 68
رہے، اور کسی بیرونی ملک اور بیرونی قوم کے تمدن اخلاق اور معاشرت سے اہل عرب متاثر نہ ہو سکے۔ خواجہ حالی نے عرب کی نسبت بالکل صحیح لکھا ہے: نہ وہ غیر قوموں پہ چڑھ کر گیا تھا! نہ اس پر کوئی غیر فرماں روا تھا مفاخرت : ان حالات میں ظاہر ہے کہ اہل عرب کے اندر دو ہی چیزیں خوب ترقی کر سکتی تھیں ۔ ایک شعر گوئی جس کے لیے وسیع فرصتیں ، اور کھلے میدان میں راتوں کو بیکار پڑے رہنا کافی محرک تھے، دوسرے حفاظت خود اختیاری کی مسلسل مشق اور صعوبت کشی کی عادت نے ان کو جنگ و پیکار اور بات بات پر معرکہ آزمائی اور زور آزمائی کا شوقین بنا دیا تھا آپس میں معرکہ آرائیوں کے میدان گرم رکھنے کے سبب وہ خود ستائی اورباہمی تفاخر کی جانب بھی زیادہ مائل ہو گئے تھے، فخر و تعلی کے لیے بہادری اور سخاوت دو مضمون بہت دلچسپ تھے۔ بے کاری اورشاعری نے ان کو عشق بازی اور ان کے امراء کو شراب خوری کی طرف بھی متوجہ کر دیا تھا، بہادری اور سخاوت نے ان کو اعلیٰ درجہ کا مہمان نواز اور قول و قرار کا پکا بنا کر مستحق تکریم بنا دیا تھا، جوا، تیر اندازی، مشاعرے، مفاخرت اور مسابقت وغیرہ ان کے دل بہلانے کے مشاغل تھے، غرض کہ عرب والوں کے اخلاق پر ملک عرب اور اس کی آب و ہوا نے بے ساختہ طور پر مرتب کر دیئے تھے۔ عرب بائدہ کی طرف سیّدنا ہود علیہ السلام سیّدنا صالح علیہ السلام وغیرہ کئی نبی مبعوث ہوئے اور ان انبیاء کی نافرمانی کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ تمام طبقہ ہلاک و برباد ہوا، دوسرے طبقہ، یعنی قحطانی عربوں کی طرف بھی بعض ہادی مبعوث ہوئے، اور اہل عرب بہت کم ان کی طرف متوجہ ہو سکے، چنانچہ نافرمانیوں اور سر کشیوں کی پاداش میں بار بار ان پر بھی ہلاکتیں وارد ہوئیں ، اس ملک کے باشندوں کی سر کشی و آزاد مزاجی نے ان کو تعلیمات انبیاء سے بھی زیادہ مستفیض نہ ہونے دیا، سیّدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیّدنا اسماعیل علیہ السلام پر بھی اس ملک کے تھوڑے سے آدمی ایمان لائے تھے۔ دین و مذہب کے معاملہ میں ان کے فخر نسب اور خود ستائی نے ان کو اپنے نسبی بزرگوں کی مدح سرائی پر متوجہ کر کے بآسانی مشاہیر پرستی پر آمادہ کر کے اور بالآخر انھی کے ناموں کے بتوں کی پوجا کا عادی بنا دیا تھا، بت پرستی نے ان کو اوہام پرستی اور عجیب عجیب حماقتوں میں مبتلا کر دیا تھا۔ جب قحطانی قبائل کا زور ملک میں کم ہونے لگا اور بنی اسماعیل یا عدنانی قبائل نے زور پکڑنا شروع