کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 679
حربن یزید تمیمی مع اپنی ایک ہزار فوج کے سامنے آیا۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر حر سے کہا کہ میں تم ہی لوگوں کے بلانے سے یہاں آیا ہوں اگر تم لوگ اپنے عہد و اقرار پر قائم ہو تو میں تمہارے شہر میں داخل ہوں ، نہیں تو جس طرف سے آیا ہوں اسی طرف واپس چلا جاؤں گا، حر نے کہا ہم کو عبیداللہ بن زیاد کا حکم ہے کہ آپ کے ساتھ ساتھ رہیں اور آپ کو اس کے سامنے زیر حراست لے چلیں ، سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ ذلت تو ہرگز گوارا نہیں ہو سکتی کہ ابن زیاد کے سامنے گرفتار ہو کر جائیں ۔ اس کے بعد انہوں نے واپس ہونے کا ارادہ کیا تو حر نے ابن زیاد کے خوف سے ان کو واپس ہونے سے روکا اور واپسی کے راستے میں اپنی فوج لے کر کھڑا ہو گیا، سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے وہاں سے شمال کی جانب کوچ کیا اور قادسیہ کے قریب پہنچ گئے، وہاں معلوم ہوا کہ عمرو بن سعد ایک بڑی فوج کے ساتھ مقیم ہے حر آپ کے پیچھے پیچھے تھا، قادسیہ کے قریب پہنچ کر سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ وہاں سے لوٹے اور دس میل چل کر مقام کربلا میں آکر مقیم ہوئے۔ عمرو بن سعد آپ کی خبر سن کر مع فوج روانہ ہوا اور سراغ لیتا ہوا اگلے روز کربلا پہنچ گیا، قریب پہنچ کر عمرو بن سعد اپنی فوج سے جدا ہو کر آگے آیا اور سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو آواز دے کر اپنے قریب بلایا، سلام علیک کے بعد ابن سعد نے کہا:’’بے شک آپ یزید کے مقابلہ میں زیادہ مستحق خلافت ہیں ، لیکن خدائے تعالیٰ کو یہ منظور نہیں کہ آپ کے خاندان میں حکومت و خلافت آئے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کے حالات آپ کے سامنے گزر چکے ہیں ، اگر آپ اس سلطنت و حکومت کے خیال کو چھوڑ دیں ، تو بڑی آسانی سے آزاد ہو سکتے ہیں ، نہیں تو پھر آپ کی جان کا خطرہ ہے اور ہم لوگ آپ کی گرفتاری پر مامور ہیں ۔‘‘ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’میں اس وقت تین باتیں پیش کرتا ہوں ، تم ان تین میں سے جس کو چاہو میرے لیے منظور کر لو۔ اوّل تو یہ کہ جس طرف سے میں آیا ہوں اسی طرف مجھ کو واپس جانے دو، تاکہ میں مکہ معظمہ میں پہنچ کر عبادت الٰہی میں مصروف رہوں ۔ دوم یہ کہ مجھ کو کسی سرحد کی طرف نکل جانے دو کہ وہاں کفار کے ساتھ لڑتا ہوا شہید ہو جاؤں ۔ سوم یہ کہ تم میرے راستے سے ہٹ جاؤ اور مجھ کو سیدھا یزید کے پاس دمشق کی جانب جانے دو، میرے پیچھے پیچھے اپنے اطمینان کی غرض سے تم بھی چل سکتے ہو، میں یزید کے پاس جا کر براہ راست اس سے اپنا معاملہ اسی طرح طے کر لوں گا، جیسا کہ میرے بڑے بھائی سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے طے کیا تھا۔‘‘ عمرو بن سعد یہ سن کر بہت خوش ہوا اور کہا کہ میں بطور خود کوئی پختہ جو اب آپ کو اس وقت ان