کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 678
لیے قتل پر دلیر ہو جائیں گے، آپ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال کر اسلام، عرب اور قریش کی حرمت کو نہ مٹائیں ، مگر امام حسین رضی اللہ عنہ پر ان کی بات کا کوئی اثر نہ ہوااور وہ بدستور کوفہ کی جانب گرم سفر رہے۔ مقام حاجر سے آپ نے قیس بن مسہر کے ہاتھ اہل کوفہ کے پاس ایک خط بھیجا، کہ ہم قریب پہنچ گئے ہیں ہمارے منتظر رہو، قیس قادسیہ میں پہنچے تھے، کہ لشکر ابن زیاد کے ہاتھ میں گرفتار ہو گئے، ابن زیاد کے روبرو مع خط پیش کیے گئے، اس نے قصر امارت کی چھت پر چڑھا کر اوپر سے گرا دیا اور قیس گرتے ہی فوت ہو گئے، پھر اگلی منزل سے اپنے رضائی بھائی عبداللہ بن یقطر کو اسی طرح خط دے کر بھیجا، وہ بھی اسی طرح گرفتار ہو کر قصر امارت سے گرا کر قتل کیے گئے۔ یہ قافلہ جب مقام ثعلبیہ میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کوفہ میں قتل کر دیئے گئے اور اب کوئی متنفس کوفہ میں سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کا حمایتی نہیں ہے، اس خبر کے سنتے ہی تمام قافلہ پر مایوسی چھا گئی اور واپسی کا ارادہ ہوا، کیونکہ کوفہ کی طرف جانے میں قوی احتمال تھا کہ جو سلوک مسلم کے ساتھ ہوا ہے، وہی اس قافلے کے ساتھ ہو گا، یہ سن کر مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے بیٹوں نے کہا کہ ہم کو ہر گز واپس نہیں ہونا چاہیے۔ اب تو ہم مسلم کا قصاص لیں گے ورنہ ان ہی کی طرح جان دیں گے، دوسرے یہ کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہما مسلم بن عقیل کی طرح نہیں ہیں ، ان کو جب کوفہ والے دیکھیں گے، تو ضرور ان کے شریک حال ہو جائیں گے اور ابن زیاد کو گرفتار کر لیں گے۔ اس قافلہ میں کئی سو آدمی شامل تھے اور راستے میں لوگ شامل ہو ہو کر ان کی تعداد کو دم بدم بڑھاتے جاتے تھے، لیکن ثعلبیہ میں اس خبر کو سن کر جب قافلہ آگے بڑھا تو دوسرے قبائل کے لوگ بتدریج جدا ہونے شروع ہوئے، یہاں تک کہ خاص اپنے خاندان اور قبیلے کے لوگ باقی رہ گئے، جن کی تعداد ستر اسی کے قریب بیان کی جاتی ہے۔ بعض روایتوں میں ڈھائی سو کے قریب بیان کی گئی ہے۔ حادثہ کربلا: عبیداللہ بن زیاد نے عمرو بن سعد بن ابی وقاص کورے کی حکومت پر نامزد کیا اور فی الحال چار ہزار فوج دے کر مامور کیا کہ صحرا میں نکل کر تمام راستوں اور سڑکوں کی نگرانی کرواؤ، حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا کھوج لگاؤ کہ وہ کس طرف سے آرہے ہیں اور کہاں ہیں اور ایک ہزار آدمی حر بن یزید تمیمی کے سپرد کر کے اس کو بھی گشت و گرد اوری پر مامور کیا، عمرو بن سعد مقام قادسیہ میں ہو کر ہر سمت کی خبریں منگوانے کا انتظام کرنے لگا۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ ایک عجیب شش و پنج کے عالم میں مقام سراف تک پہنچے، اس سے آگے بڑھے تو