کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 677
اس وقت تمہارے اونٹ کے آگے لیٹ جاتا، کہ وہ مجھ کو بغیر کچلے ہوئے آگے نہ بڑھ سکے، لیکن میں جانتا ہوں کہ تم پھر بھی نہ رکو گے اور عزیم کوفہ سے باز نہ رہو گے۔ آخر آپ مکہ سے روانہ ہوئے، مقام تیعم میں ایک قافلہ ملا جو یزید کے پاس عامل یمن کی طرف سے تحائف لے جا رہا تھا، آپ نے اس قافلہ کو گرفتار کر لیا، اور کچھ سامان اس قافلہ سے لے کر آگے روانہ ہوئے، مکہ اور کوفہ کے درمیان مقام صفاح میں عربی کے مشہور شاعر فرزوق سے ملاقات ہوئی جو کوفہ سے آرہا تھا، فرزوق جب کوفہ سے چلا تھا، تو اس وقت تک عبیداللہ بن زیاد کوفہ میں داخل نہ ہوا تھا، سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے فرزوق سے کوفہ اور کوفیوں کا حال پوچھا تو اس نے کہا کہ اہل کوفہ کے دل تو آپ کے ساتھ ہیں ، لیکن ان کی تلواریں آپ کی حمایت میں بلند نہیں ہو سکتیں ۔ کچھ دور آگے بڑھے تھے کہ عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کا خط جو انہوں نے مدینہ سے اپنے بیٹوں عون اور محمد کے ہاتھ روانہ کیا تھا آپ کو ملا، عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے لکھا تھا کہ میں آپ کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر عرض کرتا ہوں کہ کوفہ کے ارادہ سے باز رہیے اور مدینہ میں آجائیے، مجھ کو اندیشہ ہے کہ آپ قتل نہ ہو جائیں ، اللہ کے لیے آپ اس معاملہ میں جلدی نہ کریں ، ساتھ ہی مدینہ کے والی کا خط بھی ان ہی قاصدوں نے دیا، جس میں لکھا تھا کہ آپ مدینہ میں آکر رہنا چاہیں تو آپ کو امان ہے، مگر سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے واپسی سے قطعاً انکار کیا اور محمد اور عون کو بھی ہمراہ لے لیا۔ آپ نے اپنے دلیل راہ سے جو بصرہ کا ایک شخص تھا کہا کہ جس قدر جلد ممکن ہو ہم کو کوفہ میں پہنچاؤ، تاکہ ہم عبیداللہ بن زیاد کے پہنچنے سے پہلے کوفہ میں داخل ہو جائیں وہاں لوگ ہمارے سخت منتظر ہوں گے۔ اتفاقاً اسی روز عبیداللہ بن زیاد کے پاس یزید کا خط پہنچا تھا کہ اپنی حفاظت کرو اور چونکہ سیّدنا حسین مکہ سے روانہ ہو چکے ہوں گے، لہٰذا ہر ایک راستے پر فوجیں متعین کر دو، کہ ان کو کوفہ تک نہ پہنچنے دیا جائے، سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ اپنے دل میں یہ خیال کرتے ہوئے جا رہے تھے کہ مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر ہر روز لوگ بیعت کرتے ہوں گے اور جماعت اب بہت زیادہ ہو چکی ہو گی، لیکن کوفہ میں عبیداللہ بن زیاد ان کی گرفتاری یا قتل کے لیے فوجیں نامزد کر رہا تھا۔ چند منزلیں اور طے کرنے کے بعد عبداللہ بن مطیع سے ملاقات ہوئی، انہوں نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ارادے سے واقف ہو کر نہایت اصرار کے ساتھ روکا اور مکہ کی طرف واپس چلنے کے لیے قسمیں دلائیں ، پھر ان کو سمجھایا کہ آپ عراقیوں کے فریب میں نہ آئیں ، اگر آپ بنو امیہ سے خلافت چھیننے کی کوشش کریں گے تو وہ آپ کو ضرور قتل کر دیں گے اور ہر ایک ہاشمی، ہر ایک عرب اور ہر ایک مسلمان کے