کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 676
نہیں ، تو یقینا کوفہ کا عامل ان کو خوف دلا کر اور لالچ دے کر اپنے حسب منشاء جب چاہے گا استعمال کر سکے گا اور ہو سکتا ہے کہ یہی لوگ جو آپ کو بلا رہے ہیں آپ سے لڑنے کے لیے یزید کی طرف سے میدان میں آئیں ، ان حالات پر غور کرنے سے آپ کی جان کا خطرہ نظر آتا ہے، اگر عورتیں اوربچے بھی آپکے ساتھ ہوئے، توجس طرح عثمان غنی رضی اللہ عنہ اپنے اہل و عیال کے روبرو قتل کیے گئے اسی طرح آپ کے اہل و عیال کو بھی آپ کا قتل ہونا دیکھنا پڑے گا اور دشمنوں کے ہاتھ میں گرفتار ہو کر لونڈی غلام بننے کا اندیشہ رہے گا۔ جب سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی اس بات کو بھی نہ مانا، تو انہوں نے کہا کہ اگر آپ کو امارت و خلافت کا ایسا ہی شوق ہے، تو آپ اوّل یمن کے ملک میں جائیے، وہاں آپ کے بہت سے ہمدرد بھی موجود ہیں ۔ وہاں پہاڑی سلسلہ بھی حفاظت کے لیے خوب کام آسکتا ہے۔ حجاز کی حکومت بھی اگر آپ چاہیں تو بڑی آسانی سے آپ کو مل سکتی ہے۔ آخر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما مجبور ہو گئے اور سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے ان کے کسی مشورہ کو بھی نہ مانا۔ اس کے بعد سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما آئے اور انہوں نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ ہرگز کوفہ کا عزم نہ کریں ، آپ کی روانگی کے عزم کا حال جب سے مکہ میں مشہور ہوا ہے، میں بعض شخصوں سے یہ بھی سن رہا ہوں کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اب حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے چلے جانے سے بہت خوش ہو گا کیونکہ مکہ میں اس کا کوئی رقیب باقی نہ رہے گا۔ لہٰذا میں ان بدگمان لوگوں کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے آپ سے نہایت خلوص کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ آپ مکہ کی حکومت قبول فرمائیں اور اپنا ہاتھ بڑھائیں تاکہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کروں اور آپ کے حکم کی تعمیل میں شمشیرزنی کے لیے میدان میں نکلوں ، سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اب اطلاع دے چکا اور روانگی کا عزم مصمم کر چکا ہوں لہٰذا کسی طرح رک نہیں سکتا۔ آخر ۳ ماہ ذی الحجہ ۶۰ھ بروز دو شنبہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ مکہ سے مع اہل خاندان روانہ ہوئے، اسی تاریخ یعنی بروز دو شنبہ بتاریخ ۳ ذی الحجہ کوفہ میں مسلم بن عقیل قتل کیے گئے، سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ جب مکہ سے روانہ ہونے لگے تو عمرو بن سعد بن العاص رضی اللہ عنہ اور بعض دوسرے اہل مکہ نے آکر ان کو روکنا چاہا اورکہا کہ اگر آپ ویسے نہیں مانتے تو ہم آپ کو زبردستی روکیں گے اور آپ کا مقابلہ کریں گے، سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جو کچھ تم سے ہو سکے کر گزرو، اور لڑائی کا ارمان بھی نکال لو، یہ سن کر سب لوگ ان کے سامنے سے ہٹ گئے اور وہ روانہ ہوئے، رخصت کرتے وقت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں