کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 675
باہرنہ جاؤ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدائے تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں سے ایک کے اختیار کرنے کی آزادی دی تھی، آپ نے آخرت کو اختیار کیا، تم بھی خاندان نبوت سے ہو، دنیا کی طلب نہ کرو، اپنے دامن کو دنیا کی آلائش سے آلودہ نہ ہونے دو۔ یہ نصیحت کر کے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رو پڑے حسین رضی اللہ عنہ بھی رو پڑے مگر انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی رائے پر عمل کرنے سے انکار کر دیا۔ مجبوراً عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رخصت ہو کر چلے گئے۔ اس کے بعد سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آئے اور انہوں نے کہا کہ مکہ کو نہ چھوڑو اور خانہ اللہ تعالیٰ سے دوری اختیار نہ کرو، تمہارے والد محترم نے مکہ اور مدینہ کو چھوڑ کر کوفہ کو ترجیح دی تھی، مگر تم نے دیکھا کہ ان کے ساتھ کوفہ والوں نے کس قسم کا سلوک کیا، یہاں تک کہ ان کو شہید ہی کر کے چھوڑا تمہارے بھائی حسن رضی اللہ عنہ کو بھی کوفیوں نے لوٹا، قتل کرنا چاہا، آخر زہر دے کر مار ہی ڈالا، اب تم کو ان پر ہر گز اعتبار نہ کرنا چاہیے، نہ ان کی بیعت اور قسم کا کوئی بھروسہ ہے، نہ ان کے خطوط اور پیغامات قابل اعتماد ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ باتیں سن کر سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ جو کچھ فرماتے ہیں سب درست ہے، لیکن مسلم بن عقیل کا خط آگیا ہے، بارہ ہزار آدمی اس کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں اور اس سے پہلے شرفاء کوفہ کے ڈیڑھ سو خطوط میرے پاس آچکے ہیں ، اب کوئی خطرہ کی بات نہیں ہے، میرا وہاں جانا ہی مناسب ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ جواب سن کر کہا، کہ اچھا کم از کم اس ذی الحجہ کے مہینے کو ختم اور نئے سال کو شروع ہو لینے دو، پھر عزم سفر کرنا، اب حج کے دن آگئے ہیں سارے جہان کے لوگ دور دور سے مکہ میں آرہے ہیں اور تم مکہ کو چھوڑ کر باہر جا رہے ہو، محض اس لیے کہ دنیا اور دنیاداروں پر تم کو حکومت حاصل ہو، لوگوں کو حج سے فارغ ہو کر واپس ہو لینے دو، پھراگر ضروری سمجھتے ہو تو روانہ ہو جاؤ۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ معاملہ ایسا ہے کہ اب میں تاخیر نہیں کر سکتا، مجھ کو فوراً روانہ ہی ہو جانا چاہیے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اچھا اگر تم میرا کہنا نہیں مانتے ہو تو کم از کم عورتوں اور بچوں کو تو ساتھ نہ لے جاؤ، کیونکہ کوفہ والوں کا کوئی اعتبار نہیں ہے، بارہ ہزار شخص جب کہ تمہاری خلافت کے لیے بیعت کر چکے ہیں تو ان کا فرض تھا کہ وہ اوّل یزید کے عامل کو کوفہ سے نکال دیتے، خزانہ پر قبضہ کرتے اور پھر آپ کو بلاتے۔ لیکن موجودہ صورت میں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یزید کے عامل یعنی کوفہ کے عامل کے خلاف وہ کچھ نہیں کر سکتے، جبکہ ان کے پاس خزانہ بھی نہیں اور عامل کو نکال دینے کی جرأت بھی