کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 674
مسلم بن عقیل اور ہانی کاقتل: اس حالت میں مسلم بن عقیل وہاں سے بھاگے اور اہل کوفہ میں سے کسی شخص کے گھر میں پناہ گزین ہوئے، عبیداللہ بن زیاد نے عمرو بن جریر مخزومی کو ان کی گرفتاری کے لیے بھیجا، مسلم بن عقیل نے کوئی مفر نہ دیکھ کر تلوار کھینچی، لیکن عمرو بن جریرنے کہا کہ ناحق آپ اپنی جان کیوں ضائع کرتے ہو آپ اپنے آپ کو میرے سپرد کر دیں ، میں اپنی ذمہ داری پر آپ کو امیر عبیداللہ بن زیاد کے پاس لیے جاتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ اس سے آپ کی جان بخشی کرا دوں گا۔ مسلم بن عقیل نے تلوار ہاتھ سے رکھ کر اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا، وہ مسلم کو عبیداللہ کے پاس لے گیا، عبیداللہ نے مسلم کو بھی اسی کمرہ میں قید کر دیا جس میں ہانی بن عروہ پہلے سے قید تھے۔ اگلے روز بیعت کرنے والوں میں سے دس ہزار آدمی جمع ہوئے اور عبیداللہ بن زیاد کے مکان کو جا کر گھیر لیا اور مسلم و ہانی دونوں کی رہائی کا مطالبہ کیا کہ اگر دونوں کو رضامندی سے رہا کر دو، تو بہت اچھا ہے، نہیں تو ہم زبردستی چھین کر لے جائیں گے۔ عبیداللہ بن زیاد نے اپنے آدمیوں کو حکم دیا کہ چھت پر لے جا کر مسلم اور ہانی دونوں کو ان لوگوں کے سامنے قتل کر دو، چنانچہ دونوں کو قتل کر دیا گیا، یہ دیکھ کر سب منتشر ہو گئے، گویا وہ ان دونوں کو قتل ہی کرانے آئے تھے۔ عبیداللہ نے حکم دیا کہ محل کا دروازہ کھول دیں اور ان دونوں کے جسموں کو دار پر لٹکا دیں اور سروں کو یزید کے پاس دمشق لے جائیں ۔ یزید نے عبیداللہ کو لکھا کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ مکہ سے روانہ ہو چکے ہیں اور بہت جلد کوفہ پہنچنے والے ہیں تم اچھی طرح اپنی حفاظت کرو اور فوجیں متعین کر دو کہ وہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو پہلے ہی راستہ میں روک دیں اور کوفہ تک نہ پہنچنے دیں ۔ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی مکہ سے روانگی: سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے مکہ سے روانگی کی تیاری کی۔ جب سامان سفر درست ہو گیا اور مکہ میں یہ خبر مشہور ہوئی، کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہما کوفہ کو جانے والے ہیں تو سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ سے محبت و ہمدردی رکھنے والوں نے آ آکر ان کو اس ارادے سے باز رکھنا چاہا اور سمجھایا کہ آپ کا کوفہ کی طرف روانہ ہونا خطرہ سے خالی نہیں ، اوّل عبدالرحمن بن حارث نے آکر عرض کیا کہ آپ کوفہ کا عزم ترک کر دیں ، کیونکہ وہاں عبیداللہ بن زیاد حاکم عراق موجود ہے، کوفہ والے لالچی لوگ ہیں ، بہت ممکن ہے کہ جن لوگوں نے بلایا ہے وہی آپ کے خلاف لڑنے کے لیے میدان میں نکلیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے آکر کہا کہ تم بیعت لینے اور امارت حاصل کرنے کے لیے مکہ سے