کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 673
ہے، انہوں نے ہم کو لکھا ہے کہ تم فلاں تاریخ کو کوفہ پہنچ جاؤ، اسی تاریخ میں سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ بھی کوفہ پہنچیں گے۔ آپ بالکل مطمئن رہیں ، ہم سب تاریخ مقررہ کو کوفہ میں امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ داخل ہوں گے، یہ تین ہزار درہم اپنی ضروریات میں صرف کرو اور ہماری طرف سے بطور ہدیہ قبول کرو، لہٰذا آپ مجھ کو مسلم بن عقیل کے پاس پہنچا دیجئے، تاکہ میں تمام پیغامات اور یہ روپیہ ان کی خدمت میں پہنچا دوں اور فوراً کوفہ سے چلا جاؤں کیونکہ عبیداللہ بن زیاد آگیا ہے اور وہ مجھ کو پہچانتا ہے، ایسا نہ ہو کہ میں گرفتار ہو جاؤں ۔ معقل تین ہزار درہم کی تھیلی لے کر ہانی کے پاس پہنچا، وہ مکان کے دروازے پر بیٹھا تھا، معقل کی باتیں سن کر فوراً مسلم بن عقیل کے پاس لے گیا …مسلم بن عقیل نے خوش ہو کر وہ تھیلی لے لی اور پیغامات سن کر معقل کو رخصت کر دیا، معقل وہاں سے چل کر سیدھا عبیداللہ کے پاس پہنچا اور کہا کہ میں تھیلی مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو دے آیا ہوں اور خود ان سے باتیں کی ہیں ، وہ ہانی کے مکان میں موجود ہیں ، عبیداللہ بن زیاد نے ہانی بن عروہ کو بلا کر پوچھا، کہ مسلم کہاں ہیں ، ہانی نے لا علمی ظاہر کی، عبیداللہ نے معقل کو بلوا کر سب کے سامنے اس کا بیان سنوایا، ہانی شرمندہ ہو کر کہنے لگا کہ ہاں میرے ہاں مسلم بن عقیل پناہ گزین ہیں ، لیکن میں اپنی یہ بے عزتی برداشت نہیں کر سکتا، کہ اب ان کو آپ کے سپرد کر دوں ، عبیداللہ نے ہانی کو وہیں گرفتار کر لیا، شہر میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ ہانی کو عبیداللہ نے قتل کر دیا ہے، ہانی بن عروہ کے گھر کی عورتیں یہ سن کر رونے لگیں ، مسلم بن عقیل نے جب یہ صورت دیکھی تو وہ ضبط نہ کر سکے اور فوراً شمشیر بدست ہانی کے گھر سے نکل کر ان لوگوں کو آواز دی جنہوں نے مسلم رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، اٹھارہ ہزار میں سے صرف چار ہزار آدمی ان کے گرد جمع ہوئے، مسلم نے باقیوں کو بھی بلایا، لیکن ہر ایک نے یہ جواب دیا کہ ہم سے تو بیعت کے وقت یہ اقرار لیا گیا ہے، کہ جب تک سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نہ آجائیں کسی سے جنگ نہ کریں گے، ان کے آنے تک آپ کو بھی صبر کرنا چاہیے۔ مسلم بن عقیل چونکہ اب باہر آچکے تھے، لہٰذا دوبارہ نہیں چھپ سکتے تھے، ان ہی چار ہزار آدمیوں کو لے کر مسلم بن عقیل نے عبیداللہ بن زیاد کا محاصرہ کیا، عبیداللہ اس وقت دارالامارۃ میں تیس چالیس آدمیوں کے ساتھ تھا، چھتوں پر چڑھ کر محاصرین پر تیروں کی بارش شروع کی، مسلم کے ہمرائیوں کو ان کے رشتہ داروں اور دوستوں نے آ آکر سمجھانا شروع کیا کہ اپنے آپ کو کیوں ہلاکت میں ڈالتے ہو، غرض رفتہ رفتہ سب جدا ہو گئے اور مسلم بن عقیل کے ساتھ صرف تیس چالیس آدمی رہ گئے۔