کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 672
مروتی نہ کیجئے، کم از کم دروازہ کھول کر ان کو اندر آنے کی اجازت دیجئے، کیونکہ وہ سفر سے آرہے ہیں اور سیدھے آپ کے مہمان بن کر آئے ہیں ، نعمان نے کہا کہ میں اس کو پسند نہیں کرتا کہ لوگوں کو یہ کہنے کا موقع ملے کہ نعمان کے عہد حکومت میں کوفہ کے اندر حسین رضی اللہ عنہ قتل کیے گئے، عبیداللہ نے اپنا عمامہ اتارا اور کہا کم بخت دروازہ تو کھول، عبیداللہ کی آواز سن کر لوگوں نے اس کو پہچانا، دروازہ کھولا اور سب ادھر ادھر منتشر ہو گئے، عبیداللہ اندر داخل ہوا اور تھوڑی ہی دیر کے بعد عبیداللہ کا لشکر کوفہ میں داخل ہونا شروع ہوا جس کو وہ پیچھے چھوڑ آیا تھا، اسی وقت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو خبر پہنچی ، کہ ابن زیاد مع لشکر آگیا ہے، وہ جس مکان میں مقیم تھے اور لوگوں کو عام طور پر اس کا علم تھا، اس کو چھوڑ دیا اور ہانی بن عروہ کے مکان میں جا کر پناہ گزین ہوئے، اس وقت تک مسلم کے ہاتھ پر بیعت ہونے والوں کی تعداد کوفہ میں اٹھارہ ہزار تک پہنچ چکی تھی۔ عبیداللہ بن زیاد نے اگلے دن صبح کو مجمع عام کے روبرو تقریر کی اور یزید کا حکم نامہ جو اس کے پاس بصرہ میں پہنچا تھا سنایا، عبیداللہ نے کہا کہ’’تم لوگ میرے باپ زیاد بن ابی سفیان کو خوب جانتے ہو اور تم کو معلوم ہے کہ وہ کس قسم کی سیاست برتنے کے عادی تھے، مجھ میں اپنے باپ کی تمام عادات موجود ہیں ، تم لوگ مجھ سے بھی خوب واقف ہو اور میں بھی تمہارے ایک ایک شخص کا نام جانتا اور ہر ایک کا گھر اور محل پہچانتا ہوں ، مجھ سے تم کوئی چیز چھپا نہیں سکتے، میں یہ نہیں چاہتا کہ کوفہ میں خون کے دریا بہاؤں اور تم کو قتل کروں ، مجھ کو معلوم ہے کہ تم نے حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے لیے مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے، میں تم سب کو امان دیتا ہوں اس شرط پر کہ تم اس بیعت سے رجوع کر لو اور جوشخص بغاوت پر آمادہ ہے اس کو کوئی شخص اپنے مکان میں پناہ نہ دے، ورنہ ہر ایک پناہ دہندہ کو اسی کے دروازہ پر قتل کیا جائے گا۔‘‘ اس تقریر کے بعد عبیداللہ نے مسلم بن عقیل کا پتہ دریافت کیا کہ وہ کس جگہ ہیں ، کسی نے پتہ نہ بتایا، آخر عبیداللہ کو اپنے جاسوسوں کے ذریعہ معلوم ہوا کہ وہ ہانی بن عروہ کے مکان میں چھپے ہوئے ہیں ، عبیداللہ نے معقل نامی ایک شخص کو جو تمیم کے آزاد کردہ غلاموں میں سے تھا اور اس کو کوفہ میں کوئی نہیں جانتا تھا، بلا کر تنہائی میں تین ہزار درہم کی ایک تھیلی دی اور کہا کہ فلاں محلہ میں ہانی بن عروہ کے مکان پر جاؤ، جب ہانی بن عروہ سے ملاقات ہو جائے، تو اس سے کہو کہ مجھ کو آپ سے تنہائی میں کچھ کہنا ہے، جب تنہائی میں پہنچو تو ہانی سے کہو کہ مجھ کو بصرہ کے فلاں فلاں شخصوں نے بھیجا ہے اور تین ہزار درہم دیئے ہیں کہ کوفہ میں جا کر مسلم بن عقیل کے پاس پہنچا دو اور ان سے کہو کہ ہمارے پاس مکہ سے حسین رضی اللہ عنہ کا خط آیا