کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 671
بیعت اس کے ہاتھ پر کی ہے ان کی فہرست بھی تیار کر لی ہے، آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ میں زیاد بن ابی سفیان کا بیٹا ہوں ، مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کوفہ میں آئے ہوئے ہیں میں اب کوفہ کو جا رہا ہوں ، وہاں مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ اور جن لوگوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی ہے، سب کو قتل کر ڈالوں گا اور اگر تمام کوفہ بیعت کر چکا ہے، تو ایک شخص کو بھی وہاں زندہ نہ چھوڑوں گا، تمہارے ساتھ اس وقت یہ رعایت کرتا ہوں کہ بجز حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے قاصد کے اور کسی کو کچھ نہیں کہتا، لیکن یہاں سے میرے جانے کے بعد اگر کسی نے ذرا بھی کان ہلایا تو پھر اس کی خیر نہ ہو گی۔‘‘ یہ کہہ کر سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قاصد کو بلایا اور اس کو تمام مجمع کے روبرو قتل کرا دیا، کسی نے اف تک نہ کی اس کارروائی کے بعد مطمئن ہو کر وہ کوفہ کی طرف روانہ ہوا، سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ مکہ معظمہ میں بیٹھے ہوئے یہ خیال کر رہے تھے کہ بصرہ میں بھی ہمارے نام پر بیعت ہو رہی ہو گی، لیکن یہاں ان کافرستادہ قتل کیا جا رہا تھا۔ عبیداللہ بن زیاد نے قادسیہ کے مقام پر پہنچ کر اپنی رکابی فوج کو وہیں چھوڑا اور خود اپنے باپ کے آزاد کردہ غلام کے ساتھ ایک اونٹ پر سوار ہو کر کوفہ کی جانب تیز رفتاری سے روانہ ہو کر مغرب و عشاء کے درمیان کوفہ میں داخل ہوا، عبیداللہ بن زیاد نے عمامہ حجازیوں کی وضع کا باندھ رکھا تھا، یہاں لوگوں کو سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی آمد کا انتظار تھا، شیعان علی رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ کا یہاں تک زور ہو گیا تھا، کہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ شام ہی سے اپنے دیوان خانے کا دروازہ بند کر لیتے اور اپنے خاص خاص آدمیوں کے ساتھ مجلس گرم کرتے۔ دروازے پر غلام کو بٹھا دیتے‘‘ کہ ہر آنے والے کا نام و پتہ معلوم کرنے کے بعد اگر وہ اندر آنے کے قابل ہو، تو دروازہ کھولے ورنہ انکار کر دے۔ عبیداللہ بن زیاد جب کوفہ میں داخل ہوا تو لوگوں نے یہ سمجھا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ جن کا انتظار تھا کوفہ میں آگئے، جس طرف عبیداللہ کا اونٹ گزرتا، لوگ کہتے السلام علیک یا ابن رسول اللہ، عبیداللہ اپنا اونٹ لیے سرکاری دیوان خانے تک پہنچا، وہاں دیکھا تودروازہ بند ہے عبیداللہ نے دروازہ کھٹکھٹایا، اور زبان سے کچھ نہ کہا، نعمان بن بشیر اپنے دوستوں کے ساتھ چھت پر بیٹھے ہوئے تھے، وہ اٹھے اور چھت کے کنارے پر آکر دیکھا، تو چونکہ امام حسین رضی اللہ عنہ کا تمام شہر میں انتظار کیا جا رہا تھا، وہ عبیداللہ کو یہی سمجھے کہ امام حسین آگئے ہیں ، چنانچہ انہوں نے اوپر ہی سے کہا کہ ’’اے ابن رسول اللہ! آپ واپس چلے جائیے اور فتنہ برپا نہ کیجئے، یزید ہر گز کوفہ آپ کو نہ دے گا۔ نعمان کے دوستوں نے جو چھت پر بیٹھے تھے، نعمان سے کہا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ اتنی بے