کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 670
رہتا تھا، زیاد کے بعد وہ عبیداللہ بن زیاد سے بھی بہت ناخوش و متنفر تھا، عبیداللہ بن زیاد کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بصرہ کا حاکم مقرر فرمایا تھا، یزید یہ ارادہ کر رہا تھا، کہ بصرہ کی حکومت سے عبیداللہ بن زیاد کو معزول کر کے کسی دوسرے شخص کو بصرہ کا حاکم بنائے۔ اب کوفہ سے یہ وحشت ناک خبریں آنے پر یزید نے جب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام سے مشورہ طلب کیا تو اس نے عرض کیا کہ اس وقت عراق آپ کے قبضہ سے نکلنا چاہتا ہے، اگر آپ عراق کو بچانا چاہتے ہیں تو عبیداللہ بن زیاد کے سوا کوئی دوسرا شخص آپ کی مدد نہیں کر سکتا۔ میں جانتا ہوں کہ آپ کو یہ میرا مشورہ ناگوار گزرے گا مگر عبیداللہ بن زیاد کے سوا جس شخص کو بھی آپ کوفہ کی حکومت پر بھیجیں گے وہ کوفہ کو بچانے میں کامیاب نہ ہو سکے گا، ساتھ ہی میرا مشورہ یہ بھی ہے، کہ جس طرح سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے عبیداللہ کے باپ زیاد کو بصرہ و کوفہ دونوں ولایتوں کی حکومت سپرد کر رکھی تھی، اسی طرح آپ بھی عبیداللہ کو بصرہ و کوفہ دونوں ولایتیں سپرد کر دیں ، بصرہ کے لیے کسی دوسرے حاکم کو انتخاب کرنے کی ضرورت نہیں یزید نے یہ مشورہ سن کر تھوڑی دیر تامل کیا، پھر فوراً عبیداللہ بن زیاد کے نام حکمنامہ لکھا کہ’’ہم نے بصرہ کے ساتھ کوفہ کی ولایت بھی تم کو سپرد کی، اب تم کو چاہیے کہ اس حکم کے پہنچتے ہی بصرہ میں کسی کو اپنا نائب بنا کو چھوڑ دو اور خود بلا توقف کوفہ میں پہنچو‘‘ وہاں مسلم بن عقیل آئے ہوئے ہیں اور امام حسین رضی اللہ عنہ کے لیے بیعت لے رہے ہیں ، ان کو پکڑ کر قید یا قتل کرو اور جن لوگوں نے ان کو بیعت کی ہے، ان کو بھی اگر فسخ بیعت سے انکار کریں تو تلوار کے گھاٹ اتار دو اور اس قسم کے ہر ایک خطرہ کا بندوبست کر دو۔‘‘ عبیداللہ بن زیاد کو یقین تھا کہ یزید مجھ کو بصرہ کی حکومت سے معزول و برطرف کیے بغیر نہ رہے گا، اس کو پڑھ کر وہ حیران رہ گیا، پھر خوش بھی ہوا اور رنجیدہ بھی، کیونکہ اس حکم کے پڑھنے سے اس کے دل میں یہ خطرہ بھی پیدا ہوا تھا کہ یزید اس بہانہ سے مجھ کو بصرہ سے نکالنا چاہتا ہے تاہم اس نے اس حکم کی تعمیل کو مناسب سمجھا اور اپنے بھائی عثمان بن زیاد کو بصرہ میں اپنا قائم مقام مقرر کر کے خود اگلے دن کوفہ کی طرف روانہ ہونے کا عزم کیا، اتنے میں منذر بن الحارث اس کے پاس دوڑتا ہوا آیا اور کہا کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا فرستادہ ایک شخص آیا ہے اور آپ سے چھپا کر لوگوں سے امام حسین رضی اللہ عنہ کے لیے بیعت لے رہا ہے، عبیداللہ بن زیاد نے یہ سن کر اسی رات میں دھوکے سے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قاصد کو گرفتار کر لیا اور اگلے دن لوگوں کو جمع کر کے ایک تقریر کی اور کہا کہ’’حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا ایک قاصد بصرہ میں آیا اور بہت سے لوگوں کے نام خطوط لایا ہے، میں نے اس قاصد کو گرفتار کر لیا ہے، بصرہ میں جن جن لوگوں کے نام وہ خطوط یا پیغام لایا ہے، میں نے سب کے نام اس سے دریافت کر لیے ہیں اور جن جن لوگوں نے