کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 669
بن ناجیہ، رقاطہ بن شداد، ہانی بن مروہ بھی شامل ہیں ، آپ جب آئیں گے اور علانیہ بیعت لینا شروع کریں گے، تو لاکھوں آدمی بیعت میں داخل ہو جائیں گے، یہ خط سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے پاس قیس و عبدالرحمن دو شخص لے کر روانہ ہوئے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ اس خط کو پڑھ کر بہت خوش ہوئے، اور دونوں نامہ بروں کو فوراً واپس کر دیا، اور کہلا بھجوایا کہ میں بہت جلد کوفہ پہنچنا چاہتا ہوں ۔ اب سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے یہ خیال کر کے کہ بصرہ میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے گروہ کی کافی تعداد موجود ہے اپنے ایک معتمد کو احنف بن مالک اور دوسرے شرفاء بصرہ کے نام خطوط دے کر بصرہ کی جانب روانہ کر دیا، ان خطوط میں لکھا تھا، کہ آپ لوگوں کو میرے ہاتھ پر بیعت کرنی چاہیے اور فوراً کوفہ پہنچ جانا چاہیے۔ کوفہ میں مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے پہنچنے اور لوگوں کے بیعت کرنے کا حال جب عام طور پر مشہور ہو گیا تو عبداللہ بن مسلم الحضرمی نعمان بن بشیر کے پاس آیا اور کہا کہ اے امیر، خلیفہ وقت کے کام میں ایسی سستی نہیں کرنی چاہیے، آج کئی روز ہوئے مسلم بن عقیل کوفہ میں آکر لوگوں سے حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی خلافت کے لیے بیعت لے رہے ہیں ، آپ کو چاہیے کہ مسلم کو قتل کر دیں یا گرفتار کر کے یزید کے پاس بھیج دیں اور جن لوگوں نے بیعت کی ہے، ان کو بھی قرار واقعی سزا دیں ، نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ لوگ جس کام کو مجھ سے چھپا کر کر رہے ہیں ، میں اس کو آشکارا کرنامناسب نہیں سمجھتا، جب تک یہ لوگ مقابلہ کے لیے نہ نکلیں گے میں ان پر حملہ نہ کروں گا، عبداللہ یہ سن کر باہر آیا اور اسی وقت یزید کو ایک خط لکھا:’’مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کوفہ میں آکر حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی خلافت کے لیے بیعت لے رہے ہیں اور لوگ ان کے ہاتھ پر کثرت سے بیعت کر رہے ہیں ، حسین بن علی رضی اللہ عنہ کے بھی آنے کی خبر ہے، نعمان اس معاملہ میں بڑی کمزوری دکھا رہے ہیں ، آپ اگر ولایت کوفہ کو اپنے قبضے میں رکھناچاہتے ہیں ، تو کسی زبردست گورنر کو فوراً کوفہ میں بھیجیں ، تاکہ وہ آکر مسلم کو گرفتار کرے اور لوگوں سے بیعت فسخ کرائے، اور حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو کوفہ میں داخل ہونے سے روکے، اس کام میں اگر دیر ہوئی تو آپ کوفہ کو اپنے قبضے سے نکلا ہوا سمجھیں ۔‘‘ اسی مضمون کے خطوط عمارہ بن عتبہ اور ابن ابی معیط نے بھی یزید کے نام روانہ کیے، ان خطوط کو پڑھ کر یزید بہت فکر مند اور پریشان ہوا، سرجون نامی سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا ایک آزاد کردہ غلام تھا، سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی بعض پیچیدہ باتوں اور اہم معاملات میں اس سے مشورہ لیا کرتے اور اس کے مشورہ سے فائدہ اٹھایا کرتے تھے، یزید نے اس کو بلایا اور عبداللہ بن الحضرمی کا خط دکھا کر مشورہ طلب کیا، اس جگہ جملہ معترضہ کے طور پر یہ بات قابل تذکرہ ہے کہ یزید ہمیشہ زیاد بن ابی سفیان سے ناراض