کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 666
مگر کہیں سراغ نہ ملا، شام کو واپس آگئے۔ یہ تمام دن چونکہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے تجسس میں گزرا، لہٰذا سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی طرف توجہ نہ ہو سکی، اس دوسری شب میں سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ بھی موقع پا کر مدینہ سے مع اہل و عیال روانہ ہو گئے، صبح کو ان کی روانگی کا حال معلوم ہوا تو ولید نے کہا کہ میں سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کا تعاقب نہ کروں گا، ممکن ہے کہ وہ مقابلہ کریں اور مجھ کو ان کے خون سے ہاتھ رنگنے پڑیں ، جو مجھ کو کسی طرح گوارا نہیں ۔ ولید بن عتبہ نے ان دونوں صاحبوں کی روانگی کے بعد اہل مدینہ سے خلافت یزید کی بیعت لی، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کوئی خطرہ ہی نہیں تھا، کیونکہ انہوں نے کبھی خلافت کی خواہش ہی نہیں کی، ادھر یزید نے بھی لکھ دیا تھا کہ اگر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیعت نہ کریں تو ان سے کوئی تعرض نہ کیا جائے، لہٰذا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے بیعت کے لیے کسی نے کچھ نہ کہا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما چند روز کے بعد مکہ کی طرف چلے گئے تھے۔مکہ میں حارث بن حرکو یزید نے عامل بنا کر بھیج دیا تھا، اور عبداللہ بن زبیر اور حسین بن علی رضی اللہ عنہم دونوں مکہ میں ساتھ ہی داخل ہوئے، ان کو دیکھتے ہی عبداللہ بن صفوان بن امیہ نے جو شرفاء مکہ میں تھے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ پھر اس کے بعد مکہ کے دو ہزار آدمیوں نے جو شرفاء و عمائدین شمار ہوتے تھے، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے ہاتھ پر بیعت کر لی، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے حارث کو گرفتار کر کے قید کر دیا اور مکہ کی حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی، سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ بھی مکہ میں موجود تھے، نہ انہوں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے ہاتھ پر بیعت کی، نہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ یا ان کے اہل خاندان سے بیعت لینا چاہی، اسی طرح جب عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم مکہ میں تشریف لے آئے، تو ان سے بھی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیعت کے لیے کوئی خواہش ظاہر نہیں کی، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اپنا زیادہ وقت خانہ کعبہ میں مصروف عبادت رہ کر بسر کرتے تھے، ان چند حضرات کے سوا تمام اہل مکہ ان کے ہاتھ پر بیعت ہوگئے تھے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم اکثر ملتے اور مشورہ کرتے رہتے تھے، معلوم ایسا ہوتا ہے کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے لوگوں سے خلافت کی بیعت نہیں لی تھی بلکہ اس بیعت کامنشاء صرف یہ تھا کہ یزید کو خلیفہ تسلیم نہ کیا جائے اور جب تک خلیفہ عالم اسلام کے لیے متفقہ طور پر متعین نہ ہو ، اس وقت تک امن و امان اورانتظام قائم رکھنے کے لیے عبداللہ بن زبیر مکہ کے حاکم تسلیم کیے جائیں ۔ لیکن سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو یہ بات کچھ گراں گزرتی تھی، کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو حکومت مکہ کیوں حاصل ہے، اس لیے کہ وہ اور ان کے اہل خاندان عبداللہ بن زبیر کے پیچھے نماز نہ پڑھتے اور شریک جماعت نہ ہوتے۔