کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 665
تو وہ دمشق میں موجود نہ تھا، کئی دن کے بعد واپس آیا اور ان کی قبر پر نماز جنازہ پڑھی، شعر و شاعری میں بھی اس کو دست گاہ کامل حاصل تھی، سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی زندگی میں اس کے لیے بیعت ہو چکی تھی، لیکن اکثر لوگ اسی وجہ سے اور بھی زیادہ اس کی طرف سے منقبض اور دل سے ناراض تھے، مدینہ منورہ کے بعض اکابر نے تو بیعت سے قطعی انکار کر دیا تھا۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا اپنی زندگی میں یزید کے لیے بیعت لینا ایک سخت غلطی تھی، یہ غلطی غالباً محبت پدری کے سبب ان سے سرزد ہوئی، لیکن مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی غلطی ان سے بھی بڑی ہے، کیونکہ اس غلطی کا خیال اوراس پر عامل ہونے کی جرأت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ ہی کی تحریک کا نتیجہ تھا، اس لیے سیّدنا حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ مغیرہ بن شعبہ نے مسلمانوں میں ایک ایسی رسم جاری ہونے کا موقع پیدا کر دیا جس سے مشورہ جاتا رہا، اور باپ کے بعد بیٹا بادشاہ ہونے لگا۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد اہل شام نے تو بلا تامل بطیب خاطر یزید کے ہاتھ پر بیعت کر لی، دوسرے صوبوں کے لوگوں نے بھی عمال کے ذریعہ بیعت کی اور رعب سلطنت کے مقابلہ میں جرأت انکار نہ کر سکے، یزید نے تخت حکومت پر بیٹھتے ہی صوبوں اور ولایتوں کے عاملوں کو لکھا کہ لوگوں سے میرے نام پر بیعت لے لو، اس زمانہ میں مدینہ کے والی ولید بن عتبہ بن ابی سفیان اور کوفہ کے والی نعمان بن بشیر تھے، یہ دونوں عامل نیک طینیت اور صلح جو انسان تھے، ان دونوں کے مزاج میں سختی و درشتی دوسرے عالموں کے مقابلہ میں بالکل نہ تھی۔ جب یزید کا حکم مدینہ میں ولید بن عتبہ کے پاس پہنچا تو ولید نے اکابر مدینہ کو جمع کر کے یزید کا خط سنایا، سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کا حال سن کر اظہار افسوس کیا، ان کے لیے دعا مغفرت کی اور ولید سے کہا کہ ابھی میری بیعت کے لیے جلدی نہ کیجئے، میں سوچ کر فیصلہ کروں گا، مروان بن حکم جو پہلے مدینہ کا عامل اور اب ولید بن عتبہ کی ماتحتی میں بطور مشیر موجود تھا اس نے ولید کو ترغیب دی کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ سے اسی وقت بیعت لے لی جائے اور ان کو جانے نہ دیا جائے، لیکن ولید نے مروان کے مشورہ کو قبول نہ کیا اور ان کی بیعت کو اگلے دن پرملتوی رکھا۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما ولید کے پاس نہیں آتے تھے، ان کو بلوایا گیا، انہوں نے آنے سے انکار کر دیا اور ایک شب کی مہلت طلب کی، ان کو بھی ولید نے مہلت دے دی، رات کو موقع پا کر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما مع اہل و عیال مدینہ سے نکل گئے اور مدینہ کے معروف راستہ کو چھوڑ کر کسی غیر معروف راستے سے روانہ ہوئے ، اگلے دن ان کی گرفتاری کے لیے مروان اور ولید تیس آدمیوں کا ایک دستہ لے کر نکلے،