کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 664
پھینک دی اور اسی طرح تکیہ لگائے بیٹھے رہے۔ کچھ عرصہ کے بعد ایک اور خط پہنچا کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ایک بڑی فوج کے ساتھ شام پر حملہ آور ہونے والے ہیں ، اس خط کو بھی پڑھ کر میری طرف پھینک دیا اور اسی طرح بیٹھے رہے۔ مجھ سے صبر نہ ہو سکا میں نے کہا کہ چاروں طرف سے غم کی خبریں آئی ہیں ، اب آپ کیا کریں گے، انہوں نے کہا کہ قیصر اگرچہ بڑی فوج رکھتا ہے، لیکن وہ مجھ سے صلح کر کے واپس چلا جائے گا۔ نائل بن قیس اپنے مذہب اور عقیدے کی وجہ سے جنگ کرتا ہے، وہ جس ایک شہر پر قابض ہو گیا ہے چاہتا ہے کہ اس کو اپنے قبضے میں رکھے، میں اس کو چھوڑ دوں گا تاکہ وہ اسی میں مشغول رہے۔ وہ خوارج جو جیل خانہ توڑ کر بھاگ گئے ہیں اللہ تعالیٰ کے قید خانہ سے بھاگ کر کہاں جائیں گے۔ لیکن سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے معاملہ میں ہم کو سوچنے اور تدبیر کرنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح ان سے خون عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ لیا جائے۔ اس کے بعد وہ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے، اسی وقت ہر ایک معاملہ کے متعلق بندوبست کے احکام جاری کر دیئے اور پھر بدستور سابق تکیہ لگا کر بیٹھ گئے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ملک شام میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان و شکوہ دیکھ کر فرمایا تھا کہ جس طرح ایران میں کسریٰ اور روم کے قیصر ہیں اسی طرح عرب میں معاویہ رضی اللہ عنہ ہے۔ اب صحابہ رضی اللہ عنہم کی سب سے آخری حکومت و سلطنت ہو گی جس کا ذکر آئندہ صفحات میں آنے والا ہے۔ یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ : ابو خالد یزید بن معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما ۶۵ھ یا ۶۶ھ میں جب کہ سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تمام ملک شام کے حاکم تھے پیدا ہوئے، اس کی ماں کا نام میسون بنت بحدل تھا جو قبیلہ بنو کلب میں سے تھی، نہایت موٹا تازہ آدمی تھا، اس کے جسم پر بال بہت زیادہ تھے، یزید نے پیدا ہوتے ہی حکومت و امارت کے گھر میں آنکھیں کھولی تھیں ۔ سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بہت ذی ہوش و مآل اندیش شخص تھے انہوں نے یزید کی تعلیم و تربیت کی طرف خاص طور پر اپنی توجہ منعطف رکھی تھی ایک یا دو مرتبہ اس کو امیر حج بھی بنا کر بھیجا گیا تھا، فوج و لشکر کی سرداری بھی اس کو دی تھی، قسطنطنیہ کے حملے اور محاصرے میں بھی وہ ایک حصہ فوج کا سردار تھا، اس کو شکار کا بہت شوق تھا، سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مرض الموت میں وہ دمشق کے اندر موجود نہ تھا، آدمی بھیج کر اس کو بلوایا گیااور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کو وصیت کی لیکن اس وصیت کے بعد ہی وہ باپ کے مرض کو خطرناک نہ سمجھ کر پھر شکار پر چلا گیا، چنانچہ جب سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فوت ہوئے