کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 663
ہے، لیکن میں پہلے ہی اقرار کر چکا ہوں کہ میں لا مذہب مورخ بن کر اس کتاب کو نہیں لکھ رہا ہوں ، میں مسلمان ہوں اور مسلمانوں ہی کے مطالعہ کی غرض سے میں نے اس کتاب کو لکھنا شروع کیا ہے۔ لہٰذا اس اظہار خیال سے کوئی چیز مجھ کو نہیں روک سکتی تھی۔ اب سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حالات ختم کرنے سے پیشتر ان الفاظ کا نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے جو سید امیر علی صاحب سابق جج ہائی کورٹ کلکتہ نے جن کو شیعہ اور معتزلی کہا جاتا ہے، اپنی کتاب تاریخ اسلام میں مسعودی کے حوالہ سے درج کیے ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ روزانہ نماز فجر کے بعد مقامی فوج دار یا کپتان پولیس کی رپورٹ سنتے، اس کے بعد وزراء اور مشیران و مصاحبین خاص امور سلطنت اور مہمات ملکی کی سر انجام دہی کے لیے حاضر ہوتے، اسی مجلس میں پیش کار دربار اور محکمہ جات کے ناظم صوبہ جات سے آئی ہوئی رپورٹیں اور تحریریں سناتے، ظہر کے وقت نماز ظہر کی امامت کے لیے وہ محل سے باہر نکلتے اور نماز پڑھا کر مسجد ہی میں بیٹھ جاتے، وہاں لوگوں کی زبانی فریادیں سنتے، عرضیاں لیتے، اس کے بعد محل میں واپس آ کر رئیسوں کو شرف ملاقات بخشتے، پھر دوپہر کا کھانا کھاتے اور تھوڑی دیر قیلولہ کرتے، نماز عصر سے فارغ ہو کر وزیروں ، مصاحبوں اور مشیروں سے ملاقات کرتے، شام کے وقت سب کے ساتھ دربار میں کھانا کھاتے اور ایک مرتبہ لوگوں کو ملاقات کا موقع دے کر آج کا کام ختم کر دیتے۔ بہ حیثیت مجموعی سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد میں سلطنت کے اندر اور باہر فتوحات کا سلسلہ قائم رہا۔ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ میں نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر مستقل مزاج و بردبار شخص نہیں دیکھا، ایک روز ایسا اتفاق ہوا کہ میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں موجود تھا اور وہ مسند پر تکیہ لگائے بیٹھے تھے، ان کے پاس تحریری رپورٹ پہنچی کہ قیصر روم اپنی پوری فوج کے ساتھ حملہ آور ہونا چاہتا ہے، امیر معاویہ نے اس کاغذ کو پڑھ کر میری طرف ڈال دیا، میں نے پڑھا اور منتظر رہا کہ دیکھوں اب کیا کہتے ہیں ، مگر وہ اسی طرح بیٹھے رہے اور کچھ نہ کہا۔ تھوڑی دیر میں ایک اور تحریر پہنچی کہ نائل بن قیس نے جو خوارج کا سردار ہے اس نے ایک جمعیت فراہم کر لی ہے اور فلسطین پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس تحریر کو بھی پڑھ کر میری طرف پھینک دیا اور کچھ نہ کہا، میں اس تحریر کو پڑھ کر اور بھی زیادہ منتظر رہا کہ اب کیا کہتے ہیں ، مگر وہ اسی طرح بیٹھے رہے اور ان کے چہرے سے کوئی تغیر محسوس نہ ہوا۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ ایک تیسرا خط پہنچا کہ موصل کے جیل خانہ کو توڑ کر خوارج قیدی فرار ہو گئے اور موصل کے قریب ان کا اجتماع ہو رہا ہے، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ تحریر پڑھ کر بھی میری طرف