کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 662
تبدیل ہو گیا، حدیث اور فقہ کی کتابوں کو تحقیق و تدقیق کی نگاہ سے دیکھو تو یہ حقیقت منکشف ہو جائے گی کہ حدیث و فقہ و تفسیر کا تمام تر مواد صرف اسی زمانہ کا رہین منت ہے، جس زمانہ میں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان مشاجرات برپا تھے۔
اگر یہ مشاجرات برپا نہ ہوتے اور اگر سیّدنا امیر معاویہ اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہما کی معرکہ آرائیاں نہ ہوتیں تو ہم آج شریعت اسلام کے بڑے اور ضروری حصے سے محروم و تہی دست ہوتے،مگر یہ کیوں ہونے لگا تھا، اللہ تعالیٰ خود اس دین کا محافظ و نگہبان ہے، وہ خود اس کی حفاظت کے سامان پیدا کرتا ہے، چنانچہ اب اس نے وہ سامان سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ میں اختلاف کی صورت میں پیدا کیا۔
اب اسی مذکورہ مدعا کے ایک دوسرے پہلو پر نظر کرو، ہر ایک حکومت، ہر ایک سلطنت اور ہر ایک نظام تمدن کے لیے جس جس قسم کی رکاوٹیں ، دقتیں اور پیچیدگیاں پیدا ہونی ممکن ہیں اور آج تک دنیا میں دیکھی گئی ہیں ، ان سب کے نمونے سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے مشاجرات میں موجود ہیں ، ان مشکلات کے پیدا ہونے پر عام طور پر حکمرانوں ، حکمران خاندانوں اور بادشاہوں نے آج تک جن اخلاق اور جن کوششوں کااظہار کیا ہے ان سب سے بہتر اور قابل تحسین طرز عمل وہ ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایسی حالتوں میں ظاہر کیا۔
سلطنتوں کے بننے اور بگڑنے، قوموں کے گرنے اور ابھرنے، خاندانوں کے ناکام رہنے اور بامراد ہونے کے واقعات سے اس دنیا کی تمام تاریخ لبریز ہے، چالاکیوں ریشہ دوانیوں اور فریب کاریوں کے واقعات سے کوئی زمانہ اور کوئی عہد حکومت خالی نظر نہیں آتا، ان سب چیزوں کے متعلق ہم جب تلاش کرتے ہیں تو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی مخالفتوں کی روئیداد، ہمارے سامنے یکجا سب کے نمونے پیش کر دیتی ہے اور ہم اپنے لیے بہترین طرز کار اور اعلیٰ ترین راہ عمل تجویز کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔
یہ ہماری نابینائی اور بد نصیبی ہے، کہ ہم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اجتہادی مخالفتوں اور سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ و سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے مشاجرات کو بجائے اس کے کہ اپنے لیے موجب عبرت و بصیرت اور باعث خیر و نفع بناتے، اپنی نا اتفاقی و درندگی اور اپنی ہلاکت و نکبت کا سامان بنا لیا ؎
ہر چہ گیرد علتی علت شود
آنچہ گیرد کاملے ملت شود
مندرجہ بالا سطور کی نسبت شاید اعتراض کیا جائے کہ تاریخ نویسی کی حدود سے باہر قدم رکھا گیا