کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 661
جاری رہ کر اسلام کی حفاظت کا موجب ہو۔ پس خدائے بزرگ و برتر نے اپنی قدرت کاملہ سے عبداللہ بن سبا اور اس کے اتباع یعنی مسلم نما یہودیوں کی ایک جماعت پیدا کر کے سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت، جنگ جمل اور جنگ صفین کے سامان یکے بعد دیگرے مہیا کر دیئے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم جو میدان جنگ میں رستم و اسفندیار کے کارناموں کو حقیر ثابت کر رہے تھے اپنی اپنی کمانوں اور تلواروں کو توڑ کر گھروں میں آبیٹھے اور سپہ سالاری کے کام سے جدا ہو کر معلمی کے کام میں مصروف ہو گئے۔ گزشتہ اوراق میں آپ پڑھ چکے ہیں ، سیّدنا سعد بن وقاض رضی اللہ عنہ فاتح ایران جن کی سپہ سالاری میں جنگ قادسیہ کا خون ریز میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا تھا، ان اندرونی اختلافات کے وقت گوشہ نشینی و گمنامی کی زندگی اپنے لیے پسند کر کے اونٹوں ، بکریوں کے ریوڑ کی نگہداشت میں مصروف ہو گئے تھے، یہی حالت اور بھی بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم کی تھی، فتوحات کا سلسلہ رکنے اور اندرونی مخالفتیں برپا ہونے کے بعد بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم شمشیر و تیر کے استعمال کو برا سمجھنے لگے، حالانکہ اور کوئی صورت ایسی ممکن ہی نہ تھی کہ ان کو میدان جنگ کی صف اوّل سے ہٹا کر پیچھے لایا جا سکے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وہ شخص تھے، جن کو خلیفہ وقت تسلیم کرنے کے لیے تمام عالم اسلام متفق اور ہم آہنگ ہو سکتا تھا، لیکن ان اندرونی جھگڑوں نے ان کو بالکل گوشہ گزین و زاویہ نشین بنا دیا تھا۔ اس کتاب میں تم صحابہ میں سے کئی لوگوں کے نام اب تک بار بار پڑھ چکے ہو ان میں زیادہ تر وہی لوگ ہیں جو کسی نہ کسی حیثیت سے اندرونی اختلافات میں شریک تھے، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی بھی تھی جنہوں نے ان جھگڑوں میں کوئی حصہ نہیں لیا اور اسی لیے ان کا نام ان واقعات میں نہیں لیا جا سکا، اس عظیم الشان جماعت نے ان اختلافات کے زمانہ میں ان لوگوں کو جو ادب و محبت کے جذبات لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے، شریعت اسلام کی حقیقت سمجھائی اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کو آگاہ کیا، ان میں سے ہر ایک شخص ایک مدرس اور لوگوں کو حقیقت شرع سمجھانے میں مصروف تھا۔ مدینہ منورہ مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہا کا گہوارہ اور اس کے بعد خانہ کعبہ کی وجہ سے مکہ معظمہ دوسرا مرکز اسلام تھا، جب تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تعلیم و تدریس کی فرصت میسر نہ تھی مدینہ منورہ دارالخلافہ رہا ، لیکن جب خدائے تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تعلیم اسلام کاکام لینا چاہا تو مدینہ منورہ سے مرکز خلافت ہٹا دیا اور وہ مدینہ منورہ جو کچھ دنوں پہلے جنگی طاقت کا مرکز اور فوجی کیمپ بنا ہوا تھا ایک دارالعلوم کی شکل میں