کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 660
تھے، اپنے آپ کو حق و راستی پر سمجھ کر کرتے تھے، یہی حالت دوسرے صحابہ کرام کی تھی، جس نے جس کو حق پر سمجھا وہ اسی کا طرف داروحامی بن گیا اور یہ سب منشاء الٰہی کے ماتحت ہوا۔ خدائے تعالیٰ نے یہ اندرونی جھگڑے پیدا کر کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کو تو ان کاموں میں مصروف کر دیا اور دوسری جماعت نے ان آپس کے تنازعات سے بد دل ہو کر حکومت و سلطنت کے کاموں سے بالکل لاتعلقی اختیار کر کے تنہائی و گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ جب تک یہ اندرونی اختلافات پیدا نہیں ہوئے تھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تمام تر کوشش و ہمت کفارکا مقابلہ کرنے اور جنگ و پیکار کے میدانوں میں کامیابی حاصل کرنے میں صرف ہوتی تھی۔ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافتوں کا تمام زمانہ ایسی معرکہ آرائیوں اور جنگ آزمائیوں سے پر ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تمام طبقات کی نگاہیں میدان کار زار اور فتوحات ملکی کی طرف لگی رہتی تھیں ، ان دونوں متبرک خلافتوں کے زمانہ میں بھی اگرچہ جمع قرآن کا کام انجام دیا گیا، جو اسی ابتدائی زمانہ میں ہونا چاہیے تھا، لیکن یہ ممکن نہ تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کوئی معقول تعداد اور بزرگ جماعت یکسو ہو کر اور فارغ بیٹھ کر اپنی تمام تر توجہ اور پوری ہمت فقہی ترتیب و تنظیم اور احادیث نبوی کی حفاظت و تبلیغ میں صرف کر سکے۔ مدینہ منورہ ایک ایسا فوجی کیمپ بنا ہوا تھا، جس کے شہنشاہ خیمہ نشین کے سامنے گویا میدان جنگ کے نقشے ہر وقت کھلے رہتے تھے اور بڑے بڑے مدبر جنگی پالیسی متعین کرنے اور سرداران لشکر کی نقل و حرکت کے پروگرام تیار کرنے میں مصروف نظر آتے تھے، جوں جوں فتوحات کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا تھا یہ جنگی مصروفیت بڑھتی جاتی تھی اور وہ لوگ جو ایک استاد کی حیثیت سے درس شریعت دیتے اور نکات حکمت سمجھاتے، تلواروں کے گھاٹ اور تیروں کی انی درست کرنے میں مصروف اور نیزوں کی انی کے مقابلے میں اپنے سینوں کو سپر بنانے میں زیادہ مشغول ہوتے جاتے تھے۔ اس جنگی مظاہرہ کی بھی اس زمانہ کی دنیا میں اسلام کو قائم رکھنے اور مسلمانوں کو بے خوف بنانے کے لیے بے حد ضرورت تھی اور خلافت عثمانی تک وہ مطلوبہ حالت پیدا ہو گئی اور اسلام تمام دنیا میں ایک غالب مذہب اور زبردست طاقت تسلیم کر لیا گیا۔ اب ضرورت اس امر کی تھی کہ اسلام کا مکمل نظام اور شریعت کے تمام پہلو محفوظ و مامون ہو جائیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک محترم جماعت کو موقع و فراغت میسر ہو کہ وہ اپنے بعد آنے والی نسلوں کے لیے تابعین کی ایک ایسی جماعت تیار کر سکیں جوان کے بعد اوروں کو تعلیم دے سکے اور یہ سلسلہ آئندہ