کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 659
حفاظت کے سامان خود ہی پیدا کیے ہیں ، جس طرح ہم نے رحم مادر میں اپنی حفاظت کے سامان خود تجویز اور فراہم نہیں کیے تھے، جس طرح اپنے کھیتوں کو سرسبز رکھنے کے لیے سمندر سے بخارات اٹھانے، بادل بنانے، ہوائیں چلانے اور بارش برسانے کا مشورہ ہم نے خدائے تعالیٰ کو نہیں دیا تھا، اسی طرح ہمارا کیا حق ہے کہ ہم شریعت اسلام کی حفاظت کے سامان اور طریقے خود تجویز کریں اور خدائے تعالیٰ کو مجبور کرنے کی جرأت کریں کہ وہ فلاں طریقہ استعمال کرے اور فلاں سامان کو کام میں نہ لائے۔ ہمارا تو جی چاہتا ہو گا کہ آسمان سے پکی پکائی روٹیاں برس جایا کریں اور سالن کی پکی پکائی دیگچیاں زمین سے خود بخود ابل پڑا کریں ۔ لیکن خدائے تعالیٰ ہماری اس خواہش کا پابند و ماتحت نہیں بن سکتا۔ اس نے تمازت آفتاب سے سمندروں کے پانی کو بھاپ بنایا کرہ ہوائی کی بلندیوں نے بادلوں کو اپنے کاندھوں پر اٹھایا، ہواؤں نے چل کر ان بادلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا، طبقات ہوا کی حرارت و برودت نے تغیرات پیدا کر کے بادلوں کو برسایا، کاشت کاروں نے زمین کو اپنے بیلوں اور زرعی آلات کے ذریعہ نرم کیا، بیج بکھیرا، بادلوں سے بارش ہوئی، درخت اگے ان کی حفاظت کی گئی، پک جانے کے بعد کھیتی کاٹی گئی، غلہ اور بھس الگ کیا گیا، غلہ کو چکی میں پیس کر آٹا تیار ہوا، پھر اس کو گوندھا گیا، پھر خاص صنعت کے ذریعہ روٹی پک کر تیار ہوئی۔ غور کرو اور سوچو کہ خدائے تعالیٰ نے ایک روٹی کے مہیا کرنے میں کاموں کا کس قدر طویل و پیچیدہ سلسلہ پسند فرمایا ہے، مگر یہ ہماری حماقت اور کج فہمی ہو گی اگر ہم اللہ تعالیٰ کو ملزم ٹھہرائیں اور اپنے مجوزہ اختصار کو ترجیح دیں ۔ اللہ تعالیٰ کے کاموں کو طوالت پسندی سے متہم کرنا حقیقتاً ہماری نابینائی و بے بصیرتی ہے، کیونکہ وہ لا تعداد حکمتیں جو اس سلسلہ کار اور پیچیدہ راہ عمل میں مضمر ہیں ہماری چشم کوتاہ و فہم ناتمام سے اوجھل ہیں ۔ اس تمہید کو ذہن میں رکھ کر سوچو گے تو یقینا تسلیم کر لو گے کہ صحابہ کرام کے مشاجرات درحقیت اللہ تعالیٰ تعالیٰ کی طرف سے حفاظت شریعت کا ایک سامان تھا، لیکن ہم نالائقوں نے بجائے اس کے کہ بصیرت اندوز و عبرت آموز ہوتے گمراہی اور بے راہ روی میں مبتلا ہو گئے۔ کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ کرام کے تمام اختلافات ان کے اجتہاد پر مبنی تھے، ان میں سے اگر کسی سے غلطی ہوئی تو وہ اجتہادی غلطی تھی، نیت اور ارادے پر مبنی نہ تھی۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا، جو دیدہ و دانستہ شریعت اسلام اور احکام خداوندی و ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر آمادہ ہو سکتا۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کیاحق سمجھ کر کیا۔ اسی طرح سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جو کچھ کرتے