کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 658
سیّدنا علی کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بھائی زیاد بن ابی سفیان پر پورا اعتماد تھا اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سردربار برا بھلا کہہ سکتے تھے اور ہمیشہ امیر معاویہ کی طرف سے مورد الطاف رہتے تھے۔ ایک خدشہ کا جواب : سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کا تذکرہ ختم کرنے سے پیشتر ایک خدشہ کا جواب دینا ضروری معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت کردہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں شامل، آپ کے ساتھ ہمیشہ رہنے والے اور آپ کے چچازاد بھائی اور داماد تھے۔ سیّدنا امیر معاویہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سالے یعنی سیّدنا ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے، ان دونوں یعنی علی و معاویہ رضی اللہ عنہما میں مخالفت اور لڑائی کیوں ہوئی، پھر عمرو بن العاص، طلحہ، زبیر رضی اللہ عنہم ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا وغیرہ صحابہ کی ایک معقول تعداد نے ان آپس کی مخالفتوں اور لڑائیوں جھگڑوں میں کیوں حصہ لیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ان مشاجرات اور آج کل کے دنیاداروں کی لڑائیوں میں بظاہر کوئی فرق نظر نہیں آتا، پس کیوں نہ تسلیم کیا جائے کہ ان لوگوں پر صحبت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ اثر نہیں ہوا، جو ہونا چاہیے تھا۔ اس خدشہ کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہر ایک صحابی یقینا نجم ہدایت ہے اور اس بزرگ و برتر پاک جماعت پر صحبت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا بے شبہ و شک و ریب وہی اثر ہوا ہے جو ہونا چاہیے تھا۔ ہماری کوتاہ فہمی اور تنگ نظری ہے کہ ہمارے قلوب اس قسم کے شکوک و شبہات کامقام و مسکن بن جاتے ہیں ، سنو اور غور سے سنو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو شریعت لے کر آئے اس میں نوع انسان کی فلاح کے جمیع اصول اتم و اکمل طور پر موجود ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کامل و مکمل شریعت کی تعلیم و تبلیغ کا فرض پورے طور پر انجام دیا، اس شریعت کے بعد اب قیامت تک کوئی دوسری شریعت نازل ہونے والی نہیں ، جب کہ اس شریعت کا دامن قیامت کے دامن سے ملا ہوا ہے اور نوع انسان کو اپنی سعادت اور صلاح و فلاح تک پہنچنے کے لیے اسی شریعت کی احتیاج ہے، تو اس جیسی عظیم الشان اور کامل شریعت کو دوسری شریعتوں کی مانند بگڑنے اور خراب ہونے سے بچانے کے لیے کوئی ایسا ہی عظیم الشان سامان اور بندوبست بھی ہونا ضروری تھا۔ چنانچہ نوع انسان کی تسکین خاطر اور اطمینان قلب کے لیے خدائے تعالیٰ نے خود ارشاد فرمایا ہے کہ ﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّ لْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْن ﴾ پس معلوم ہوا کہ اس شریعت کی حفاظت کے سامان خدائے تعالیٰ خود ہی حسب ضرورت پیدا کرتا رہے گا اور اس ساڑھے تیرہ سو سال کے عرصہ میں ہم نے دیکھ لیا ہے کہ خدائے تعالیٰ نے شریعت حقہ کی