کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 656
بھی روباہ باز (چالباز) شخص ہیں ان پر اگر تو قابو پائے تو ان کو قتل کر دینا۔
مکہ اور مدینہ کے رہنے والوں پر ہمیشہ احسان کرنا اور اہل عراق اگر ہر روز عامل کے تبدیل کرنے کی فرمائش کریں ، تو ہر روز عامل کو ان کی خوشی کے لیے تبدیل کرتے رہنا۔ اہل شام کو ہمیشہ اپنا مددگار سمجھنا اور ان کی دوستی پر بھروسہ کرنا۔‘‘
اس کے بعد یزید پھر شکار میں چلا گیا۔ امیر معاویہ کی حالت دم بدم نازک ہوتی چلی گئی آخر بروز جمعرات بتاریخ ۲۲ رجب ۶۰ھ کو اس جہان فانی سے عالم جاودانی کی طرف رخصت ہوئے۔ ستر سال کی عمر پائی۔
ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال و ناخن تھے، مرتے وقت انہوں نے وصیت کی کہ یہ بال اور ناخن میرے منہ اور آنکھوں میں رکھ دینا۔ ضحاک بن قیس نے جنازہ کی نماز پڑھائی، دمشق
میں باب جابیہ اور باب صغیر کے درمیان مدفون ہوئے۔
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت پر ایک نظر!
سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی سلطنت کو جس کا زمانہ بیس سال ہے ضرور کامیاب سلطنت کہا جا سکتا ہے، کیونکہ ان کے زمانہ سلطنت میں کوئی مدعی سلطنت اور ان کارقیب ان پر خروج نہیں کر سکا۔ ان کے زمانہ میں مشرق، مغرب، شمال، جنوب ہر طرف اسلامی حکومت کے رقبہ نے وسعت پائی، کوئی ملک اور کوئی علاقہ سلطنت اسلامیہ سے خارج نہیں ہوا اور کوئی ایسی بغاوت اس عرصہ میں نہیں پھوٹی جو قابل تذکرہ ہو۔ ملک میں ڈاکہ زنی اور شورش جیسی کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں عراق و ایران کے اندر پائی جاتی تھی باقی نہیں رہی۔
مسلمانوں نے بحری لڑائیاں شروع کیں اور مسلمانوں کی بحری طاقت کا لوہا بھی رومیوں اور عیسائیوں نے مانا۔ ان کے زمانہ میں زیاد بن ابی سفیان اور بعض دوسرے عاملوں نے عراقیوں اور ایرانیوں پر کسی قدر سختی اور تشدد کو روا رکھا لیکن ان عراقیوں اور ایرانیوں پر اگر سختی اور تشدد نہ ہوتا تو ظلم تھا اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کا ایک نقص سمجھا جاتا۔
مسلمانوں پر سب سے پہلے امیر معاویہ نے برید مقرر کیے اور ان کے لیے ایک نظام اور آئین مقرر فرمایا جس کو محکمہ ڈاک کہا جاتا ہے۔ سب سے پہلے احکام پر مہر لانے اور ہر حکم کی نقل دفتر میں محفوظ رکھنے کا طریقہ انہوں نے ایجاد کیا اور امیر معاویہ کی مہر پر ’’لکل عمل ثواب‘‘ (یعنی ہر عمل کا ثواب ہے) کندہ تھا۔