کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 655
یزید نے جواب دیا کہ : ’’میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کروں گا۔‘‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’سنت صدیقی پر بھی عامل ہونا چاہیے کہ انہوں نے مرتدین سے جنگ کی اور اس حالت میں فوت ہوئے کہ امت ان سے خوش تھی۔‘‘ یزید نے کہا : ’’نہیں صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کافی ہے۔‘‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے پھر کہا : ’’اے بیٹے! سیرت عمر کی بھی پیروی کر کہ انہوں نے شہروں کو آباد کیا اور فوج کو قوی کیا اور مال غنیمت فوج پر تقسیم کیا۔‘‘ یزید نے جواب دیا کہ : ’’نہیں صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کافی ہے۔‘‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ : ’’اے بیٹے! سیرت عثمان پر بھی عامل ہونا کہ انہوں نے لوگوں کو زندگی میں فائدہ پہنچایا اور سخاوت کی۔‘‘ یزید نے کہا کہ : ’’نہیں صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی میرے لیے کافی ہے۔‘‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا کہ : ’’اے بیٹے! تیری ان باتوں سے مجھ کو یقین ہو گیا ہے کہ تو میری باتوں پر عمل درآمد نہ کرے گا میری وصیت اور نصیحت کے خلاف ہی کرے گا۔‘‘[1] اے یزید! تو اس بات پر مغرور نہ ہونا کہ میں نے تجھ کو اپنا ولی عہد بنا دیا ہے اور تمام مخلوق نے تیری فرماں برداری کا اقرار کر لیا ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی طرف سے تو زیادہ اندیشہ نہیں ہے، کیونکہ وہ دنیا سے بیزار ہیں ۔ حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو اہل عراق ضرور تیرے مقابلہ کے لیے میدان میں نکالیں گے۔ تو اگر ان پر فتح پائے تو ان کو قتل ہر گز نہ کرنا اور قرابت و رشتہ داری کا پاس و لحاظ رکھنا۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما
[1] یہ بھی جھوٹا واقعہ ہے، صحیح سند سے ثابت نہیں ۔