کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 653
چھاؤنی ایسی ضروری تھی جیسی عراق کے لیے بصرہ و کوفہ۔ سنہ ۵۵ھ میں قیروان کی آبادی پایہ تکمیل کو پہنچی تھی کہ مسلمہ بن مخلد نے عقبہ بن نافع کو معزول کر کے ان کی جگہ اپنے ایک غلام ابوالمہاجر کو سپہ سالار مقرر کر دیا۔ عقبہ بن نافع دمشق میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس چلے آئے۔ مروان، سعید اور عقبہ وغیرہ کئی صاحب الرائے اور صاحب عزم و ہمت سرداروں کے دمشق میں موجود ہو جانے اور زیادہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے اکثر بلاد اسلامیہ پر مستولی ہو جانے کے بعد سنہ ۵۶ھ میں یزید کی ولی عہدی کے لیے تمام عالم اسلام میں عالموں کی معرفت بیعت عام لی گئی۔ صرف تین چار شخص یعنی عبداللہ بن زبیر اور حسین بن علی رضی اللہ عنہم وغیرہ نے بیعت نہیں کی۔ ان لوگوں کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کے حال پر چھوڑ دیا اور زیادہ مجبور کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ زیاد بن ابی سفیان کی موت : سنہ ۵۳ھ میں زیاد بن ابی سفیان مرض طاعون سے فوت ہوئے اور سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان کے فوت ہونے کا سخت ملال ہوا، زیاد نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے فرمائش کی تھی کہ مجھ کو عراق و فارس کے علاوہ حجاز و عرب کی حکومت عطا کی جائے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس فرمائش اور خواہش کو منظور کر لیا، لیکن اہل حجاز اس خبر کو سن کر خائف ہوئے، اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس گئے کہ زیاد کی حکومت سے کس طرح محفوظ رہیں ، انہوں نے قبلہ رو ہو کر دعا کی، سب نے آمین کہی۔ اس دعا کا نتیجہ یہ ہوا کہ زیاد کی انگلی میں ایک دانہ نکلا اور اسی میں وہ فوت ہوئے، زیاد نے کوفہ کے اندر ماہ رمضان المبارک میں وفات پائی ۔ زیاد نے کوفہ کی حکومت اپنی طرف سے عبداللہ بن خالد بن اسید کو سپرد کر رکھی تھی۔ زیاد کی وفات کے وقت اس کے بیٹے عبیداللہ بن زیاد کی عمر ۲۵ سال کی تھی، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تمہارے باپ نے کس کس کو کہاں کہاں کی حکومت عطا کی؟ عبیداللہ نے کہا کہ سمرہ بن جندب کو بصرہ کی حکومت اور عبیداللہ بن خالد بن اسید کو کوفہ کی۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا تمہیں کہاں کی حکومت دی تھی؟ عبیداللہ نے کہا مجھ کو کہیں کی حکومت سپرد نہیں کی۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب تمہارے باپ نے تم کو کہیں کی حکومت نہیں دی تو پھر میں بھی تم کو کہیں کا حاکم مقرر نہ کروں گا۔ عبیداللہ نے کہا میرے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا ذلت و بدنامی ہو گی کہ میرے باپ نے بھی مجھ کو کہیں کا حاکم مقرر نہیں فرمایا اور اب آپ میرے چچا ہیں ، آپ بھی مجھ کو کوئی سرداری عطا نہیں فرماتے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کچھ سوچ کر اور عبیداللہ کو قابل پا کر بصرہ و خراسان و فارس کا اعلیٰ حاکم مقرر فرما دیا۔