کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 652
ان تینوں صورتوں کے سوا اور کوئی چوتھی صورت نہیں جس پر ہم رضا مند ہو سکیں ۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی تائید باقی صاحبوں نے بھی کی، سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حج سے فارغ ہو کر مذکورہ حضرات کے سوا باقی تمام اہل مکہ سے یزید کی ولی عہدی کے متعلق بیعت لی اور لوگوں کو اپنی جود و عطا سے مالا مال کیا، اس میں شک نہیں کہ لوگوں کو یزید کے معاملہ میں اپنا ہم خیال و ہم نوا بنانے کے لیے سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مال و دولت سے زیادہ کام لیا اور ممکن ہے کہ وہ یزید کی نامزدگی و ولی عہدی کو حقیقتاً عالم اسلام کے لیے زیادہ مفید اور مسلمانوں کی فلاح و صلاح کا موجب یقین کرتے ہوں اور اس کے مضر پہلو قطعاً ان کی نگاہ کے سامنے نہ آئے ہوں ۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی وفات : حج بیت اللہ سے فارغ ہو کر وہ واپس دمشق میں آئے تو خبر سنی کہ کوفہ میں سیّدنا ابو موسیٰ اشعری فوت ہو گئے، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے زیاد کو بصرہ و کوفہ کا حاکم تو پہلے ہی بنا دیا تھا اور سجستان تک کا علاقہ ان کے ماتحت تھا، اب انہوں نے مناسب سمجھا کہ سندھ و کابل و بلخ و جیحون و ترکستان تک کے تمام مشرقی ممالک زیاد کے ماتحت کر دیئے جائیں ، چنانچہ زیاد کا مرتبہ اب اس قدر بلند ہو گیا کہ وہ خود فارس و خراسان وغیرہ صوبوں کے گورنر اپنے اختیار سے مقرر کرتے اور جس کو چاہتے معزول کر دیتے۔ زیاد نے ان تمام مشرقی ممالک کا انتظام بڑی قابلیت اور خوبی کے ساتھ قائم رکھا اور خوارج کو بھی سر ابھارنے کا موقع نہیں دیا، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو زیاد کی وجہ سے بڑی امداد ملی اور ایسے لائق اور قابل شخص کا ہاتھ آجانا ان کی خوش قسمتی تھی۔ اگر زیاد ان مشرقی ممالک میں امن و امان قائم نہ رکھ سکتے تو خوارج کے خروج اور منافقوں کے فتنے برپا ہو کر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اتنا ہوش ہی نہ لینے دیتے کہ وہ یزید کی بیعت کے اہتمام و انصرام میں مصروف ہو سکتے، ادھر مشرقی ممالک کے ہنگامہ کا مغربی ممالک پر بھی بہت بڑا اثر پڑتا اور قیصری حملوں سے سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اطمینان و سکون حاصل نہ ہوتا۔ مصر اور افریقہ وغیرہ کا حاکم امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مسلمہ بن مخلد کو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بعد مقرر فرمایا تھا۔ عقبہ بن نافع فہری جو طرابلس الغرب اور الجیریا و مراکو کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے اور جن کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے خود اس مہم پر نامزد و مامور فرما کر روانہ کیا تھا، ابن مسلمہ بن مخلد گورنر مصر کے ماتحت کر دیے گئے تھے۔ مدینہ میں مروان بن حکم اور مکہ میں سعید بن العاص رضی اللہ عنہ حاکم تھے۔ شام و فلسطین براہ راست امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زیر انتظام تھے۔ ادھر عقبہ بن نافع فہری نے شمالی افریقہ کی ضرورتوں کو مد نظر رکھ کر ایک جنگل کو صاف کر کے شہر قیروان کی آبادی کا سنگ بنیاد رکھا۔ افریقہ کے لیے قیروان کی فوجی