کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 651
سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے احنف بن قیس کے ان الفاظ کو بھی بہت غنیمت سمجھا اور بعد میں ان کو بھاری انعام دے کر خوش کیا، اسی طرح باہر سے آئے وفود کو خوب انعام و اکرام سے مالا مال و خوش حال کر کے واپس بھیجا۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو سب سے زیادہ حجاز یعنی مکہ و مدینہ کے لوگوں کا خیال تھا اور وہیں ایسے لوگ موجود تھے جو جرأت کے ساتھ اظہار مخالفت کر سکتے تھے، انہوں نے ۵۱ ہجری کے آخر ایام میں حج بیت اللہ کا ارادہ کیا، مصلحت اس میں یہ بھی تھی کہ وہ اہل حجاز کو اپنا ہم خیال بنانے میں کامیاب ہوں ، چنانچہ اوّل مدینہ منورہ پہنچے، ان کی آمد کی خبر سن کر عبداللہ بن زبیر ، عبداللہ بن عمر ، عبداللہ بن عباس اور سیّدنا حسین رضی اللہ عنہم مدینہ سے مکہ کو چلے گئے، انہوں نے مدینہ پہنچ کر لوگوں کو خوب انعام و اکرام دیئے اور ان کے دلوں پر قبضہ پا کر اپنا ہم خیال بنایا اور مروان بن حکم کو سمجھایا کہ مدینہ والوں کے روزینے بڑھا دو، ان کو قرض کی ضرورت ہو تو بلا دریغ بیت المال سے قرض دو اور قرض کی وصولی کا تقاضا نہ کرو، جس سے مخالفت کا زیادہ اندیشہ ہو اس کو زیادہ عطا کرو اس طرح ان کو زیر بارا احسان بناؤ۔ ابن عمر کا جواب : اس کے بعد مکہ کی طرف روانہ ہوئے وہاں مذکورہ بالا چاروں حضرات کو اپنے پاس بلایا اور یزید کی بیعت کے معاملہ میں گفتگو کی، سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں صرف اس قدر اقرار کر سکتا ہوں کہ تمہارے بعد جس شخص کی خلافت پر لوگ متفق ہو جائیں گے میں اس کو خلیفہ تسلیم کر لوں گا، اگر ایک حبشی غلام کو بھی لوگ خلیفہ بنا لیں گے تو میں اس کی اطاعت کروں گا اور جماعت کا ساتھ نہ چھوڑوں گا۔ ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی مدلل مخالفت : عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہم آپ کے سامنے چند باتیں پیش کرتے ہیں آپ ان میں سے جس کو چاہیں اختیار فرما لیں ۔ اوّل یہ کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کریں اور خلافت کے معاملہ کو ویسے ہی بلانامزدگی مسلمانوں کے انتخاب پر چھوڑ جائیں کہ وہ جس کو چاہیں خلیفہ بنا لیں اور اگر آپ کو یہ بات پسند نہیں ہے، تو سنت صدیقی پر عمل کریں کہ ایسے شخص کو اپنا قائم مقام مقرر فرما جائیں جو نہ آپ کی قوم کا ہو نہ خاندان کا۔ یہ بھی پسند نہ ہو تو پھر آپ سنت فاروقی پر عامل ہوں کہ ایسے چھ اشخاص کو نامزد کر جائیں جو نہ آپ کے خاندان و قبیلے کے ہوں ، نہ ان میں آپ کا بیٹا شامل ہو، وہ چھ شخص اپنے آپ میں سے جس کو چاہیں خلیفہ منتخب کر لیں ۔