کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 65
کرنے کے کام آتا تھا اور اس کا نام دارالندوہ رکھا گیا تھا، دارالندوہ میں بیٹھ کر قصی نے یہ بھی تجویز کیا کہ حج کے موقع پر تین دن تک حاجیوں کو کھانا کھلایا جائے اور تمام قریش اس کے اخراجات کے لیے آپس میں چندہ سے رقم جمع کریں ، غرض یہ کہ قصی کو مکہ اور حجاز میں دینی اور دنیوی دونوں قسم کا اقتدار حاصل تھا۔۴۸۰ء میں قصی راہی ملک بقا ہوئے۔ اور ان کا بیٹا عبدالدار اپنے باپ کی جگہ مکہ کا حاکم تسلیم کیا گیا۔ عبدالدار کی وفات کے بعد اس کے پوتوں اور اس کے بھائی عبدمناف کے بیٹوں میں حکومت مکہ کے لیے فساد برپا ہوا، لیکن مکہ کے بااثر لوگوں نے بیچ میں پڑ کر فیصلہ کیا کہ عبدمناف کے بیٹے عبدشمس کو آب رسانی، چندہ یا ٹیکس کی وصولی اور حاجیوں کی میزبانی کا کام سپرد ہو، عبدالدار کے پوتوں کو فوجی انتظام، کعبہ کی حفاظت اور دارالندوہ کی نگرانی کا کام سپرد کیا جائے۔ چند روز کے بعد عبدمناف کے بیٹے عبدشمس نے اپنے چھوٹے بھائی ہاشم کی کو اپنی حکومت اور تمام حقوق دے دیئے۔ ہاشم اپنی تجارت، دولت اور سخاوت کی وجہ سے اہل مکہ میں بہت ہر دل عزیز تھے، انہوں نے قریش کو تجارت کی ترغیب دینے اور تجارت کے ذرائع پیدا کر دینے سے بہت فائدہ پہنچایا۔ عبدالمطلب کی وجہ تسمیہ: ہاشم نے مدینہ کے ایک سردار کی لڑکی سے شادی کی اس کے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام شیبہ رکھا گیا، یہ لڑکا ابھی بچہ ہی تھا کہ ہاشم کا انتقال ہو گیا، اور ان کا بھائی مطلب مکہ کا حکمران ہوا، ہاشم کا بیٹا شیبہ مدینہ میں پرورش پاتا رہا، جب مطلب کو معلوم ہوا کہ ہاشم کا بیٹا جوان ہو گیا تو وہ اپنے بھتیجے کو لینے کے لیے خود مدینہ گیا، جب مطلب اپنے بھتیجے شیبہ کو لے کر مکہ میں داخل ہوا تو یہاں کے لوگوں نے غلطی سے سمجھا کہ یہ نوجوان مطلب کا غلام ہے، مطلب کو جب اس غلط فہمی کا حال معلوم ہوا تو اس نے لوگوں سے کہا یہ میرا بھتیجا اور ہاشم کا بیٹا ہے مگر لوگ اس کو عبدالمطلب ہی کے نام سے پکارتے رہے آخر شیبہ بن ہاشم کا نام عبدالمطلب ہی مشہور ہو گیا۔ عبدالمطلب کے اخلاق عزت و شہرت سب اپنے باپ ہاشم کا نمونہ تھے، امیہ کے بیٹے حرب کو عبدالمطلب کا اثر و اقتدار گراں گزرا اور اس نے بھی اپنے باپ کی طرح عبدالمطلب کو مقابلہ کے لیے دعوت دی، دستور کے موافق اس مرتبہ بھی منصف مقرر ہوا اور اس نے فیصلہ عبدالمطلب ہی کے حق میں دیا، [1]اس فیصلہ نے بنی امیہ اور بنی ہاشم کے درمیان عداوت کو اور بھی بڑھا دیا۔
[1] یہاں محترم مؤلف کی عبارت غیر واضح ہے۔ تاہم سیاق کلام سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ حرب نے عبدالمطلب کے اقتدار کے خلاف آواز اٹھائی، واللہ اعلم سبحانہ و تعالیٰ۔