کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 643
اس سازش کی جرأ ت نہ ہوتی کیونکہ زیاد بن ابی سفیان خوارج کی نبض کو خوب پہچانتے تھے، اور بصرہ والوں کو انہوں نے اچھی طرح سیدھا کر دیا تھا۔ مستورد بن علقمہ کی سرداری میں تین سو سے زیادہ خوارج یکم شوال ۴۳ ہجری کو عین عید الفطر کے روز کوفہ سے نکلے، مغیرہ رضی اللہ عنہ نے ان تین سو کی گرفتاری کے لیے تین ہزار کا لشکر بھیجا، مقابلہ ہوا اور تین سو خوارج نے تین ہزار کے لشکر کو شکست دی، اس کے بعد اور فوج بھیجی گئی، اس کو بھی شکست ہوئی، بالآخر معقل بن قیس کی سرداری میں ایک زبردست لشکر مغیرہ نے روانہ کیا، نتیجہ یہ ہوا کہ معقل بن قیس اور مستورد بن علقمہ دونوں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ہوئے مارے گئے اور خوارج کے پانچ آدمیوں کے سوا سب کے سب کھیت رہے، اس واقعہ کا یہ اثر ہوا کہ مغیرہ بن شعبہ خوارج کی طرف سے زیادہ چوکس رہنے لگے۔ بحری بیڑے کی تیاری : قیصر روم کی طرف سے ملک شام کی شمالی سرحدوں کو ہمیشہ خطرہ رہتا تھا، شام کے ساحل پر بحری حملوں کا بھی اندیشہ تھا، مصر و افریقہ پر بھی رومیوں کی بحری چڑھائیاں ہوتی رہتی تھیں ، سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مشرقی مسائل کی طرف سے مطمئن ہو کر رومی خطرہ کی طرف اپنی تمام تر ہمت صرف کی، بحری فوج تیار کی، بحری فوج کے سپاہیوں کی تنخواہیں زیادہ کیں ، تاکہ بحری فوج میں داخل ہونے کی لوگوں کو ترغیب ہو۔ قریباً دو ہزار جنگی کشتیاں تیار کرائیں اور جنادہ بن امیہ کو بحری فوج کا سپہ سالار یا امیر البحر مقرر فرمایا۔ بری فوجوں کو بھی پہلے سے زیادہ مضبوط کیا، انتظامی فوج (پولیس) کے علاوہ جنگجو فوج اور جارحانہ پیش قدمی کرنے والی فوج کا جداگانہ انتظام کیا، اس فوج کے دو حصے بنائے، ایک کا نام شاتیہ یعنی سرمائی فوج رکھا اور دوسری کا نام صائفہ یعنی گرمائی لشکر تجویز کیا، اس طرح گرمی و سردی دونوں موسموں میں بری فوج سرحدوں پر رومی لشکر کو ہٹانے اور دبانے میں مصروف رہنے لگی۔ ادھر بحری لشکر نے قبرص روڈس وغیرہ جزیروں کو اپنا مستقرو مرکز بنا کر قیصر کے جہازوں کو بحر روم سے بے دخل کر کے مصر و شام کے ساحلوں کو بحری حملوں سے محفوظ کر دیا۔ ۴۳ ہجری میں سجستان کے ملحقہ علاقے رحج وغیرہ فتح ہوئے، اسی سال برقہ و سوڈان کی طرف اسلامی لشکر نے پیش قدمی کی اور ان علاقوں میں حکومت اسلامیہ کا رقبہ بہت وسیع ہوا۔