کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 639
دیکھو یہ معاویہ ہیں ، ان کی پھوپھی حمالۃ الحطب تھی۔ سیدنا عبداللہ بن عباس سے کسی نے سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی نسبت دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ان کا حلم غصہ کے لیے تریاق تھا اور ان کی سخاوت زبانوں پر قفل لگا دیتی تھی، ان کو دلوں کو جوڑنا خوب آتا تھا اور یہی سبب ان کے استحکام حکومت کا ہوا۔ ایک روز امیر معاویہ نے خود فرمایا کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں مجھ کو جو کامیابی حاصل ہوئی اس کے چار سبب ہیں : ۱۔ یہ کہ میں اپنے راز کو مخفی رکھتا تھا اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ تمام باتیں لوگوں پر ظاہر کر دیتے تھے۔ ۲۔ یہ کہ میرے پاس فرماں بردار فوج تھی اور علی رضی اللہ عنہ کے پاس نافرمان لوگ تھے۔ ۳۔ یہ کہ میں نے جنگ جمل میں مطلق حصہ نہیں لیا۔ ۴۔ یہ کہ میں قریش میں مقبول تھا اور علی رضی اللہ عنہ سے لوگ ناراض تھے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اہم واقعات : سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تخت خلافت پر متمکن ہوئے تو عالم اسلام میں عقائد و اعمال کے اعتبار سے تین قسم کے لوگ موجود تھے۔ پہلا گروہ شیعان علی رضی اللہ عنہ کا تھا، یہ لوگ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو مستحق خلافت سمجھتے تھے اور اب ان کے بعد ان ہی کی اولاد کو منصب خلافت کا حق دار مانتے تھے، یہ گروہ عراق و ایران میں زیادہ آباد تھا اور مصر میں بھی اس خیال کے لوگ بکثرت پائے جاتے تھے، مگر سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کے خلافت چھوڑ دینے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح کر لینے سے اس گروہ کی تعداد پہلے سے بہت کم ہو گئی تھی۔ دوسرا گروہ شیعان معاویہ رضی اللہ عنہ یا شیعان بنو امیہ کا تھا، اس گروہ میں تمام ملک شام اور بنو کلب وغیرہ بعض حجازی قبائل بھی شامل تھے۔ یہ لوگ سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے قتل کی وجہ سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور بنو امیہ ہی کو مستحق خلافت سمجھتے اور ان کی امداد و اعانت کے لیے ہر طرح آمادہ تھے۔ تیسرا گروہ خوارج کا تھا، یہ لوگ شیعان علی رضی اللہ عنہ اور شیعان بنی امیہ دونوں کو گمراہ اور کافر یقین کر کے ان کے مقابلہ میں ہر قسم کی قوت و شدت کام میں لاتے تھے، ان ہی میں منافق اور سازشی لوگ بھی جو متفقہ طور پر عالم اسلام کے دشمن تھے، ملے جلے رہتے تھے، ان خوارج کی تعداد زیادہ تر ملک عراق یعنی بصرہ و کوفہ اور ایران میں موجود تھی۔ ان تین گروہوں کے علاوہ ایک چوتھا گروہ ایسے لوگوں کا بھی موجود تھا جو ان تمام جھگڑوں اور ہنگاموں سے الگ تھلگ رہنااور خاموشی و گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرنا چاہتے تھے، ان لوگوں میں اکثر جلیل