کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 638
خلافت کی اس وقت سے امید تھی، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ جب تو بادشاہ ہو جائے تو لوگوں سے بحسن سلوک پیش آنا۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا حلم اور ان کی دانائی ضرب المثل کے طور پر مشہور تھی، ایک مرتبہ سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے عہد خلافت میں حج سے فارغ ہو کر مدینہ میں آئے اور یہاں چند روز ٹھہرے، ایک روز عبداللہ بن محمد بن عقیل بن ابی طالب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے کہ ابو قتادہ انصاری بھی اس طرف آنکلے، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کو دیکھ کر فرمایا کہ مجھ سے ملنے کے لیے تمام لوگ آئے مگر انصار نہیں آئے۔ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہمارے پاس سواری نہیں ہے، اس لیے نہیں آسکے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تمہارے اونٹ کیا ہوئے؟ ابو قتادہ نے جواب دیا کہ تمہارے اور تمہارے باپ کے تعاقب میں ہمارے سارے اونٹ تھک گئے ہیں ، پھر کہنے لگے ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ میرے بعد ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ لوگ حق دار کے مقابلہ میں غیر حق دار کو ترجیح دیں گے۔ امیر معاویہ نے فرمایا کہ ایسی حالت کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ فرمایا ہے کہ کیا کرنا چاہیے؟ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حالت کی نسبت ارشاد فرمایا ہے، کہ صبر کرنا چاہیے۔ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بس پھر تم صبر کرو۔ قریش میں سے ایک جوان آدمی امیر معاویہ کے پاس گیا اور ان کو برا بھلا کہنے لگا، امیر معاویہ نے اس کی بدزبانی سن کر فرمایا کہ اے میرے بھتیجے اس حرکت سے باز آجا، کیونکہ بادشاہ کا غصہ بچے کا سا ہوتا ہے اور اس کا مواخذہ شیر کا سا۔ شعبی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ عاقلان عرب چار ہیں ۔ معاویہ، عمرو بن العاص، مغیرہ بن شعبہ اور زیادہ رضی اللہ عنہم ۔ معاویہ حلم و خردمندی کی وجہ سے، عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ پیش آمدہ کے سلجھانے کی قابلیت کے سبب سے، مغیرہ رضی اللہ عنہ اوسان خطا نہ ہونے کی وجہ سے اور زیاد ہر چھوٹی بڑی بات میں نیز قاضی بھی چار ہیں ، عمر ، علی ، ابن مسعود ، زید بن ثابت رضی اللہ عنہم جابر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر قرآن و فقہ کا عالم اور طلحہ بن عبیداللہ سے بڑھ کر بغیر سوال کے عطا کرنے والا اور معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر حلیم و عاقل اور عمرو بن العاص سے بڑھ کر خالص دوست میں نے نہیں دیکھا۔ سیدنا عقیل بن ابی طالب ایک روز امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کو دیکھ کر ازراہ خوش طبعی کہا کہ دیکھو یہ عقیل ہیں ، ان کے چچا ابو لہب تھے، سیّدنا عقیل نے فوراً جواب میں کہا کہ