کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 636
سلامت روی اور اعتدال پسندی کی خاص طور پر شہرت تھی، وہ طویل القامت، سرخ و سفید رنگ، خوبصورت اور مہیب آدمی تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ عرب کے کسریٰ ہیں ، جس روز معاویہ رضی اللہ عنہ تم میں سے اٹھ جائیں گے تو تم دیکھو گے کہ بہت سے سر جسموں سے جدا کیے جائیں گے۔ آخر عمر میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا پیٹ کسی قدر بڑھ گیا تھا اور ممبر پر بیٹھ کر خطبہ سناتے تھے، بیٹھ کر خطبہ سنانے کی ابتداء امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہی سے ہوئی۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خوب پڑھے لکھے آدمی تھے، فتح مکہ کے روز اپنے باپ ابو سفیان کے ہمراہ آکر پچیس سال کی عمر میں مسلمان ہوئے اور پھر وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے، جنگ حنین اور محاصرہ طائف میں بھی شریک تھے، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تشریف لا کر عمرہ ادا کرنے کے بعد مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے، تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مدینہ میں آئے اور کاتب وحی مقرر ہوئے، کتابت وحی کی خدمت کے علاوہ باہر سے آئے ہوئے وفود کی مدارت اور ان کے قیام و طعام کا اہتمام بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بھائی یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو ایک لشکر کے ساتھ شام کی طرف بھیجا تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ایک دستہ فوج دے کر ان کا کمکی مقرر کیا، فتوحات شام میں انہوں نے اکثر لڑائیوں کے اندر بطور مقدمہ الجیش کا رہائے نمایاں انجام دیئے اور اپنی شجاعت و مردانگی کا سکہ دلوں پر بٹھایا۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو علاقہ اردن کا مستقل حاکم مقرر کیا، طاعون عمواس میں جب سیّدنا ابوعبیدہ اور یزید بن ابی سفیان وغیرہ صحابی فوت ہوگئے تو فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ان کو ان کے بھائی یزید کی ولایت دمشق کا والی مقرر فرمایا، علاقہ اردن اور دوسرے اضلاع بھی ان کی حکومت میں شامل رہے۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جب بیت المقدس تشریف لے گئے، تو سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی ان کا استقبال کیا اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ہمرکاب رہے، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر اعتراض کیا کہ تم نے شاہانہ شان و شکوہ اختیار کی ہے اور سنا ہے کہ تم نے دربان بھی مقرر کیے ہیں ؟ سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ شام کی سرحدوں پر قیصر کی فوجوں کا اجتماع اور حملہ آوری کا ہمیشہ خطرہ رہتا ہے، قیصر کے جاسوس ملک شام میں پھیلے ہوئے ہیں ، قیصر اور عیسائیوں کو مرعوب رکھنے کے لیے ظاہری شان و شوکت اور قیصر کے جاسوسوں سے محفوظ رہنے کے لیے دربانوں کو ضروری سمجھتا