کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 634
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص عہد جاہلیت کی عقیدت و عصبیت کی طرف ترغیب دلائے وہ واجب القتل ہے۔ پھر ایک مرتبہ فرمایا کہ اگر کسی شخص نے اپنی قرابت داری یا دوستی کی وجہ سے کسی کو امیر یا حاکم بنا دیا، حالانکہ مسلمانوں میں اس سے بہتر شخص مل سکتا تھا، تو اس نے اللہ تعالیٰ اور رسول اور تمام مسلمانوں کی خیانت کی۔ غرض صرف سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ ہی کا یہ عقیدہ نہ تھا کہ خاندان نبوت کے لیے شرف نبوت ہی کافی ہے، اور اس کے ساتھ شرف حکومت کی جمع نہیں ہونا چاہیے، بلکہ یہی عقیدہ اکثردوسرے صحابہ کرام کا بھی تھا، اور حقیقت یہ ہے کہ دنیا سے شرک کے مٹانے اور شرک کے امکانات کا استیصال کرنے کے لیے سادات عظام کو جو سردار دو جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ، دنیا کی حکومت اور مادی دولت کا خواہش مند بھی نہ ہونا چاہیے، تاکہ وہ فرزندی محمد اور اپنے آل رسول ہونے کا پورا پورا ثبوت پیش کر سکیں ۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ حکم نہ فرماتے کہ سادات عظام کے لیے صدقہ حرام ہے تو ہم کو یہ توقع ہو سکتی تھی کہ سادات یعنی خاندان نبوی ہی مستحق خلافت اورشہنشاہی کا حق دار ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان نبوت کے لیے یہ انتظام فرمانا سب سے بڑی دلیل اس امر کی ہے، کہ دنیوی حکومت و سلطنت اور مادی دولت سے بے تعلق ہونا اپنے خاندان والوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے تجویز فرما چکے، یا الہام الٰہی سے معلوم کر چکے تھے، سادات عظام کے لیے یہ اتنا بڑا فخر ہے اور ان کے مرتبہ کو اتنا بلند کر دیتا ہے کہ دنیا کی دوسری قومیں جو شریعت اسلام سے تعلق رکھتی ہیں ، ان پر جس قدر رشک کریں کم ہے۔ دنیوی دولت اور حکومت بھی وہ چیز ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ سے دور و مہجور کر دیتی ہے اور اسی لیے قرآن و حدیث میں دولت دنیا کو حقارت کی نظر سے دیکھا گیا ہے، تاریخ ہم کو بتاتی ہے کہ دولت و حکومت کی وجہ سے علم صحیح بھی اعمال صالحہ پر لوگوں کو آمادہ نہیں کر سکا، پس شریعت حقہ کی حفاظت ان ہی لوگوں نے کی ہے جو دولت و حکومت سے کچھ زیادہ تعلق نہ رکھتے تھے اور اسی قسم کے لوگ قیامت تک اسلام کی حفاظت کا کام کرتے رہیں گے۔ اس حدیث پر بھی غور کرو، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’میں تم میں قرآن اور اپنی آل یعنی سادات کو چھوڑتا ہوں ۔‘‘پس یہ حدیث بھی اس بات کی دلیل ہو جاتی ہے، کہ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ نے عین منشائے حدیث کے موافق فرمایا تھا کہ ’’میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ نبوت اور خلافت ہمارے خاندان میں جمع نہیں رہ سکتیں ۔