کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 633
ذریعہ شامل ہے، لیکن عباسیوں میں خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کی آمیزش نہیں ہے، لہٰذا ان کوخاندان نبوت نہیں کہا جا سکتا)۔ مصر کے ایک حکمران خاندان (بنو عبید) نے اپنے آپ کو فاطمی کہا، لیکن محققین نے ان کو اپنے اس دعویٰ میں جھوٹا پایا، ہندوستان میں بھی ایک حکمران خاندان گزرا ہے، جن کو خاندان سادات کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، مگر یہ حقیت عالم آشکارا ہے کہ خضر خاں حاکم ملتان جو اس خاندان کا مورث اعلیٰ تھا ہر گز سید نہ تھا، اس کے سید مشہور ہونے کی وجہ صرف یہ تھی کہ ایک بزرگ صوفی نے اس کو سید (سردار) کہہ کر پکارا تھا، جیسے کہ آج کل بھی لوگ مغل اور پٹھان سرداروں کو ’’سیدی‘‘ کہہ کر مخاطب کر لیتے ہیں ۔ غرض کہ آج تک کسی ملک میں سادات کی کوئی قابل تذکرہ خود مختار حکومت اور بادشاہت کبھی قائم نہ ہو سکی، ایک طرف یہ حقیقت ہمارے سامنے ہے، دوسری طرف ہم سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کے ان آخری الفاظ کو دیکھتے ہیں ، تو بے اختیار ہمارا دل ان الفاظ کی پر عظمت صداقت کا مقر اور ان الفاظ کی ہیبت و شوکت سے مرعوب ہو جاتا ہے۔ خاندان نبوی (سادات) اور خلافت اسلامیہ : سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے وقت جو کچھ اپنے بھائی حسین رضی اللہ عنہ سے فرمایا، یہ صرف ان ہی کا اجتہاد یا الہام نہ تھا، بلکہ صحابہ کرام کی تمام اس جماعت کا، جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں زیادہ رہنے کا موقع ملا تھا، یہی خیال تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ہاشمی کو نہ کسی صوبہ کی مستقل حکومت عطا فرمائی، نہ کسی بڑی فوج کا خود مختار اور ذمہ دار سپہ سالار بنایا، جنگ موتہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو سپہ سالاری پر نامزد فرمایا، مگر اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو ان پر مقدم اور فائق رکھا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو چند روز کے لیے یمن کے خراج کی وصولی پر مامور فرمایا، مگر یمن کی اعلیٰ حکومت و افسری معاذ بن جبل اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کو تفویض کی۔ اسی طرح ابوبکر صدیق اور سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما نے بنو ہاشم کو ذمہ دارانہ عہدوں اور صوبوں کی حکومتوں پر مامور نہیں فرمایا حالانکہ یہ دونوں اولین خلیفہ بنو ہاشم کی بڑی تعظیم و تکریم بجا لاتے اور ان کی راحت و خوشنودی کا ہمیشہ خیال رکھتے تھے، اپنے کاموں میں ان ہی سے مشورہ طلب کرتے اور عموماً انھی کے مشوروں پر عمل بھی کرتے تھے، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر صاف فرما دیا تھا کہ اگر شرف نبوت کے ساتھ ان لوگوں کو حکومت بھی مل گئی، تو وہ لوگوں کو اپنے حد سے زیادہ محکوم و مغلوب پا کر غرور قومی میں مبتلا ہو جائیں گے اور اس طرح اسلام کی حقیقی روح کو ضائع کر کے خود بھی ضائع ہو جائیں گے۔