کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 629
انسانوں کو بچایا۔ دوسری چیز جو انسان کو ظلم عظیم میں مبتلا کر سکتی ہے اور کرتی رہی ہے، تکبر اور بے جا تفاخر ہے، اسی نے ابلیس کو ابلیس بنا کر شیطان رجیم بنایا اور اسی کے ذریعہ شیطان نے اکثر انسانوں کو صراط مستقیم سے ہٹا کر ہلاکت آفریں راہوں پر چلایا، یہ بے جا تفاخر جب بے جا محبت کے ساتھ مل جاتا ہے، تو گمراہی اور ہلاکت کا نہایت زود اثر معجون نوع انسان کے لیے تیار ہو جاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہلاکت آفریں سامان شرک تعصب و تکبر کو مٹانے اور دور کرنے کے لیے فتح مکہ کے روز خانہ کعبہ کے دروازہ میں کھڑے ہو کر تمام باشندگان مکہ اور شرفائے عرب کے اجتماع عظیم کو مخاطب کر کے فرمایا کہ’’اے گروہ قریش! اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کے تکبر اور باپ دادا کے فخر کو دور کر دیا، تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے تھے، خدائے تعالیٰ فرماتا ہے: اے لوگو! ہم نے تم کو نر و مادہ سے پیدا کیا اور تمہاری شاخیں اور قبائل بنائے تاکہ تمہاری الگ الگ پہچان ہو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہی ہے جو زیادہ نیک ہے۔‘‘ نسلی و قبائلی تفاخر کو مٹانا درحقیقت شرک کے امکانات کو مٹا کر توحید کی استعداد کا پیدا کرنا تھا، ساتھ ہی قبیلوں اور برادریوں کے وجود اور ان کے امتیازات سے بھی انکار نہیں ہے، لیکن بزرگی اور فضیلت کو نسل و برادری سے متعلق نہیں رکھا گیا، بزرگی و برتری صرف خداشناسی و اللہ تعالیٰ ترسی سے تعلق رکھتی ہے، ہر ایک شخص متقی و بااللہ تعالیٰ بن کر مستحق کرامت بن سکتا ہے اور ہر ایک قبیلہ کا ہر ایک شخص اپنی بد اعمالیوں کے ذریعہ رذالت و ذلت کما سکتا ہے، اس صحیح روش اور جادہ مستقیم پر گامزن کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو فلاح دارین اور سعادت انسانی تک پہنچایا۔ خلافت راشدہ کے ابتدائی نصف زمانہ میں مسلمانوں کو ترک کردہ سامان گمراہی اور فراموش شدہ عصبیت خاندانی سے کوئی تعلق نہ تھا، بلال حبشی کو اکابر قریش سیدی (میرے آقا) کہہ کر پکارتے اور نیک اعمال کی بنا پر ان کو اپنے آپ سے زیادہ مکرم و معظم جانتے تھے، اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کی سپہ سالاری میں بڑے بڑے خاندانی مہاجرین و انصار کو محکوم بنا کر بھیجنے میں یہی حکمت تھی کہ کسی کے گوشہ قلب میں یہ خیال باقی نہ رہ سکے کہ محض قوم یا نسل یا خاندان کی وجہ سے کوئی معظم و مکرم بن سکتا ہے۔ حکومت و خلافت اگر کسی خاص قبیلہ اور خاص خاندان کا حق ہوتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صوبوں اور ولایتوں کی حکومت میں بنی ہاشم کے سوا کسی دوسرے کو عامل بنا کر نہ بھیجتے اور فوجوں کی سپہ سالاری سوائے بنی ہاشم کے کسی دوسرے کو عطا نہ فرماتے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی کم کسی ہاشمی کو فوج کی سپہ سالاری