کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 628
پانچواں باب: خلافت بنو امیہ تمہید اسلام اور خاندانی عصبیت : خلافت راشدہ کے بعد اب ہم کو سلطنت بنو امیہ کے حالات شروع کرنے ہیں ، خلافت راشدہ میں پہلے دو خلیفہ (ابوبکر و عمر) نہ بنی امیہ سے تھے نہ بنی ہاشم سے، ان دونوں کا عہد خلافت خلافت راشدہ کا بہترین زمانہ تھا۔ تیسرے بنو امیہ کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور چوتھے بنو ہاشم سے، خلافت راشدہ کے آخری نصف زمانہ میں بنو امیہ اور بنو ہاشم دونوں قبیلوں کے خلیفہ تخت پر متمکن رہے، یہ آخری نصف زمانہ پہلے نصف زمانہ کے مقابلہ میں ناکام زمانہ کہا جا سکتا ہے، اگرچہ بعد کی خلافتوں سے یقینا اچھا تھا، کیونکہ صحابہ کرام ہی بر سر حکومت تھے اور اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دنیا میں زندہ موجود تھے۔ اسلام دنیا میں شرک کو مٹانے اور توحید قائم کرنے کے لیے آیا، رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کامل توحید اور حقیقی کامرانی کا راستہ نسل انسانی کو دکھایا، شرک سے بڑھ کر کوئی نقصان وزیاں اور توحید سے بڑھ کر کوئی سعادت و کامیابی انسان کے لیے نہیں ہو سکتی، شرک درحقیقت ایک ناانصافی اور ظلم کا نام ہے اسی لیے قرآن کریم میں اس کو ظلم عظیم کہا گیا ہے، اس سے بڑھ کر اور کیا ظلم ہو سکتا ہے کہ انسان اپنے حقیقی معبود کو چھوڑ کر ان مجبور ہستیوں کو معبود ٹھہرائے، جو معبود حقیقی کی مخلوق اور غلام ہیں ؟ پس شرک میں وہی شخص مبتلا ہو سکتا ہے، جو عدل کے خلاف ناانصافی اور ظلم کو اپنا شعار بنائے، اس ظلم و ناانصافی میں مبتلا کرنے والی سب سے بڑی چیز جہالت اور بے جا محبت ہے، جس کو اصطلاح قرآنی میں ضلال اور گم راہی کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ اب غور کرو اور سوچو کہ اپنے خاندان اور قبیلے کے بزرگوں کی بے جا محبت میں ان کے ناموں ، ان کی تصویروں ، ان کے مجسموں ، ان کی قبروں کی بے جا تعظیم کے ذریعہ دنیامیں سب سے زیادہ شرک نے رواج پایا اور اسی گمراہی کے ذریعہ نوع انسانی نے اپنے خالق و مالک و معبود کو فراموش کر کے اپنے آپ کو ہلاکت کے گڑھے میں گرایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مبعوث ہو کر جہاں شرک کے دیگر امکانات کو مٹا دیا، وہاں اس بے جا خاندانی عصبیت اور عدل و انصاف سے دور کرنے والی گمراہ کن اور بے جا محبت سے