کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 624
کرتا، باپ بیٹے کی رعایت ضروری نہیں سمجھتا، جب کہ دین و ملت کا معاملہ درمیان میں آ جائے، ہر شخص کو رائے کی آزادی حاصل تھی، خلیفہ کو سر منبر معمولی طبقہ کا آدمی روک اور ٹوک سکتا تھا، بعد میں رائے کی یہ آزادی اور دین و ملت کی یہ پاس داری کم ہو گئی تھی۔ خلفائے راشدین اپنے آپ کو مسلمانوں کا بادشاہ نہیں سمجھتے تھے، بلکہ وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کا خادم سمجھ کر ان کی خدمت کرتے اور مسلمانوں کا چرواہا اور چوکیدار سمجھ کر ان کی پاسبانی کرتے اور مسلمانوں کو اپنی اولاد سمجھ کر ان پر شفقت فرماتے تھے، مسلمانوں کو اپنا غلام نہیں جانتے تھے اور ان سے غلاموں کی طرح اپنے احکام کی تعمیل نہیں کراتے تھے، بعد کی خلافتوں میں اس کے برعکس حالات پیدا ہوئے اور خلفاء نے اپنے آپ کو قیصرو کسریٰ کا نمونہ بنا کر ظاہر کیا۔ خلفائے راشدین کی حکومت و سلطنت دینوی اعتبار سے قیصرو کسریٰ کی طرح قہرو وجبر کی حکومت نہ تھی، دینی معاملات میں بھی وہ بہ اختیار خود کچھ نہیں کر سکتے تھے، جب کسی دینی مسئلہ میں اختلاف یا شبہ پیدا ہوتا تو وہ دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بلا کر ان سے دریافت کرتے اور جو بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو جاتی اسی کے موافق احکام جاری کرتے اور اگر کسی دینی معاملہ میں ان سے غلطی ہو جاتی اور بعد میں ان کو اپنی غلطی کا احساس و علم ہوتا تو فوراً اس کی اصلاح کر لیتے تھے، غرض دینی و دینوی ہر دو پہلوؤں میں ان کی سیادت و حکومت آج کل کی جمہوری حکومتوں کے صدر اور آج کل کے دینی علماء کی سیادت و حکومت آج کل کی جمہوری حکومتوں کے در اور آج کل کے دینی علماء کی سیادت و حکومت سے بھی بہت ہی کم تھی، ان کا کام شریعت کے احکام کا نفاذ اور امن و امان کا قائم رکھنا تھا ان کے زمانے میں لوگوں کو ہر قسم کی جائز آزادی حاصل تھی اور ہر چھوٹے سے چھوٹے معاملہ میں ہر شخص ان سے جواب طلب کر سکتا تھا، ان کو اپنے احکام کے نافذ کرنے کے لیے کسی طاقت اور فوج کی ضرورت نہ تھی، بلکہ ہر شخص ان کے حکم کو چاہے وہ اس کے خلاف ہو خود ہی اپنے اوپر جاری اور صادر کر لیتا اور اس کی تعمیل کرتا تھا، جو دلیل اس امر کی ہے کہ ان کی حکومت محبت اور عقیدت کی بنیاد پر قائم تھی، خوف و دہشت اور قہرو جبر کے ذریعہ قائم نہ تھی۔ لیکن بعد کی خلافتوں میں احکام شرع کے نفاذ و قیام کا کام خلفاء نے خود چھوڑ کر مولویوں ، مفتیوں اور قاضیوں کے سپرد کر دیا، مساجد کے خطیب و امام الگ مقرر ہوئے، فوج اور خزانے کا اختیار اپنے قبضہ میں رکھ کر ان دونوں قوتوں کا استعمال مطلق العنان ہو کر شروع کیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی حکومت و سلطنت قہرو جبر و خوف و دہشت پر قائم ہوئی، لوگوں کی جائز آزادی چھن گئی، مذہبی احکام کے نفاذ و قیام