کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 623
صحبت میں ہمیشہ رہتے تھے، بعد کی خلافتوں میں سیّدنا امیر معاویہ اور سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے سوا کوئی قابل تذکرہ صحابی خلیفہ نہ تھا۔ خلفائے راشدین سب کے سب ان لوگوں میں سے تھے، جو جنتی ہونے کی بشارت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سن چکے تھے، لیکن بعد کی خلافتوں میں ایسے صحابہ نہیں پائے گئے، خلفائے راشدین کو مسلمانوں کی صلاح و فلاح کا خیال سب سے زیادہ تھا وہ اعلائے کلمۃ اللہ اور اجرا ء احکام شرع کے سب سے زیادہ خواہاں تھے، لیکن ملک گیری کا نصب العین نہ تھا۔ خلفائے راشدین ملکوں کے محاصل اور مال غنیمت کی آمدنی کو خزانہ میں ذخیرہ رکھنے کے عادی نہ تھے، جس قدر مال و دولت آتی وہ سب مسلمانوں کی تقسیم کر دیتے، یا مسلمانوں کی بہتری کے کاموں میں خرچ کر دیا کرتے تھے، یہاں تک کہ بیت المال کا تمام مال خرچ کر کے بیت المال میں جھاڑوں دلوا دیا کرتے تھے، لیکن بعد میں قائم ہونے والی خلافتوں کی حالت اس کے خلاف رہی۔ خلفائے راشدین ہمیشہ خود حج کے لیے جاتے اور وہاں عالم اسلام کے ہر حصے اور ہر گوشے سے آئے ہوئے مسلمانوں سے ملتے اور ان کی ضرورتوں اور شکایتوں سے واقف ہو کر وہاں کے عاملوں کی قابلیت اور ناقابلیت سے واقف ہوتے، ضروری احکام جاری کرتے اور اس طرح حج کے موقع پر عظیم الشان اجتماع سے فائدہ اٹھا کر اپنے فرائض کو پورا کرتے، اگر کسی ضروری کام یا مجبوری کی وجہ سے خود حج کے لیے نہ جا سکتے، تو اپنا قائم مقام بھیج کر ان ضرورتوں کو پورا کر لیتے تھے، لیکن خلافت راشدہ کے بعد حج کے اجتماع عظیم سے خلفاء نے یہ فائدہ اٹھانا ترک کر دیا۔ خلفائے راشدین دارالخلافہ میں خود ہی نمازوں کی امامت کرتے اور جمعہ کا خطبہ بیان فرماتے تھے، لیکن بعد میں صرف خلافت بنو امیہ میں یہ رسم باقی رہی ان کے علاوہ باقی خلافتوں میں خلفاء نے نمازوں کی امامت اور جمعہ کے خطبے دوسرے کے ذمہ ڈال دیئے۔ خلفائے راشدین کے زمانے میں مسلمانوں کے اندر الگ الگ مذہبی فرقے اور جماعتیں قائم نہ تھیں ، آپس میں اختلاف بھی ہوتا تھا لیکن دین و ملت اور عقائد کے معاملے میں ان گروہ بندیوں کا نام و نشان بھی نہ تھا جو بعد میں پائی گئیں اور آج شیعہ، سنی وہابی ، حنفی، شافعی ، قادری، چشتی وغیرہ سیکڑوں فرقے اپنی الگ الگ حیثیتیں قائم رکھنے پر مصر نظر آتے ہیں ۔ خلفائے راشدین کے زمانے میں مذہب اور شریعت کے مقابلہ میں کسی رشتہ داری، قومیت، ہم وطنی وغیرہ کی کوئی حقیقت نہ تھی، ان کے حالات پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بھائی، بھائی کی پرواہ نہیں