کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 619
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اب بلا اختلاف عام عالم اسلام کے خلیفہ ہو گئے، سیّدنا سعد بن ابی وقاص جو معاملات ملکی سے قطع تعلق کر کے اونٹوں اور بکریوں کے چرانے اور گوشہ نشینی کے عالم میں مصروف عبادت رہتے تھے انہوں نے بھی سیّدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی، غرض کوئی ایسا قابل تذکرہ شخص باقی نہ رہا جس نے جلد یا کچھ تامل کے بعد سیّدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ وقت تسلیم کر کے بیعت نہ کی ہو۔ بعد انعقاد صلح سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ چند روز کوفہ میں رہے، پھر کوفہ کی سکونت ترک کر کے مع جملہ متعلقین مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے، اہل کوفہ تھوڑی دور تک بطریق مشایعت ہمراہ آئے، مدینہ آ کر پھر آپ نے کبھی کسی دوسری جگہ کی سکونت کا قصد نہیں فرمایا۔ زہر کا افسانہ: ۵۰ ھ یا ۵۱ ھ میں آپ نے وفات پائی، عام طور پر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ آپ کو آپ کی بیوی جعدہ بنت الاشعث نے زہر دیا تھا، مگر جب کہ خود سیّدنا حسن اور سیّدنا حسین رضی اللہ عنہما کو بھی تحقیق نہ ہو سکی کہ زہر کس نے دیا اور کیوں دیا تو دوسروں کا حق نہیں ہے کہ وہ سیکڑوں ہزاروں برسوں کے بعد یقینی طور پر اسے مجرم قرار دیں ۔ وفات کے وقت سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیّدنا علی رضی اللہ عنہ تک خلافت پہنچی اور تلواریں میانوں سے نکل آئیں اور یہ معاملہ طے نہ ہوا، اب میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ نبوت اور خلافت ہمارے خاندان میں نہیں رہ سکتیں ، یہ بھی ایک اندیشہ ہے کہ سفہائے کوفہ تم کو یہاں سے نکالنے کی کوشش کریں گے تم ان کے فریب میں نہ آنا، میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کہا تھا کہ مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دفن ہونے کی اجازت دے دیں ، اس وقت تو انہوں نے مان لیا تھا اب لوگوں کا خیال ہے کہ تم پوچھو گے تو نہ مانیں گی، مگر میرے بعد تم ان سے پھر دریافت کرنا، اگر وہ اجازت نہ دیں تو اصرار نہ کرنا۔‘‘ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے بسرو چشم منظور ہے، لیکن جب مروان نے یہ خبر سنی کہی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اجازت دے دی ہے، تو وہ مانع ہوا، سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی مسلح ہو کر چلے، مگر سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آ کر سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو سمجھایا اور کشت و خون کے ارادے سے باز رکھا، چنانچہ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کو ان کی والدہ ماجدہ سیّدنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس دفن کر دیا گیا، سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کے نو بیٹے اور چھ بیٹیاں کل پندرہ اولاد تھیں ۔