کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 618
اگر امارت اور خلافت ان کا حق تھا تو ان کو پہنچ گیا اور اگر یہ میرا حق تھا، تو میں نے ان کو بخش دیا۔
رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پیشین گوئی:
اس کے بعد صلح کے تمام مدارج طے ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشین گوئی بھی جو سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کی نسبت آپ نے ارشاد فرمائی تھی پوری ہو گئی کہ ’’میرا یہ بیٹا سردار ہے اور خدائے تعالیٰ اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کرا دے گا‘‘[1]
سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ منبر سے اترے تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بیساختہ ان سے مخاطب ہو کر کہا کہ’’ابو محمد! آپ نے آج اس قسم کی جواں مردی اور بہادری دکھائی ہے کہ ایسی جواں مردی اور بہادری آج تک کوئی بھی نہ دکھا سکا۔‘‘
یہ صلح ۴۱ ھ میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت سے چھ ماہ بعد وقوع پذیر ہوئی، اس لیے ۴۱ ھ کو عام الجماعت کے نام سے موسوم کیا گیا۔
بعد تکمیل صلح سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کوفہ سے دمشق کی جانب روانہ ہوئے اور جب تک سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ زندہ رہے، ان کے ساتھ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بڑی تکریم و تعظیم کا برتاؤ کیا اور برابر ان کی خدمت میں حسب قرار داد صلح نامہ روپیہ بھیجتے، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے کوفہ سے واپس چلے جانے کے بعد اہل کوفہ نے آپس میں یہ چرچا کرنا شروع کیا کہ یہ صوبہ اہواز کا خراج تو ہمارا مال غنیمت ہے، ہم سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کو ہرگز نہ لینے دیں گے، سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ نے سن کر اہل کوفہ کو جمع کیا اور ان کے سامنے تقریر کی کہ
اے اہل عراق میں تم سے بار بار درگزر کر چکا ہوں ، تم نے میرے باپ کو شہید کیا، میرا گھر بار لوٹا، مجھے نیزہ مار کر زخمی کیا، تم دو قسم کے مقتولین کو یاد رکھتے ہو ایک وہ لوگ جو صفین میں مقتول ہوئے، دوسرے وہ جو نہروان کے مقتولین کا معاوضہ طلب کر رہے ہیں ، معاویہ نے جو معاملہ تم سے کیا ہے اس میں تمہاری کوئی عزت بھی نہیں اور انصاف بھی یہی ہے، پس اگر تم موت پر راضی ہو، تو میں اس صلح کو فسخ کر دوں اور تیغ تیز کے ذریعہ فیصلہ طلب کروں ، اور اگر تم زندگی کو عزیز رکھتے ہو، تو پھر میں اس صلح پر قائم رہوں ۔
یہ سنتے ہی ہر طرف سے آوازیں آنے لگیں کہ صلح قائم رکھیے، صلح قائم رکھیے، بات یہ تھی کہ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ اہل کوفہ کی کم ہمتی اور بیوقوفی سے خوب واقف تھے، انہوں نے صرف دھمکی سے ان کو سیدھا کرنا مناسب سمجھا۔
[1] صحیح بخاری، کتاب الصلح، حدیث ۲۷۰۴۔