کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 617
کے متعلقین کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کوئی ضرر نہ پہنچائیں گے اور یہ دونوں بھائی اور ان کے متعلقین جس شہر اور جس آبادی میں چاہیں گے سکونت اختیار کریں گے، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے عاملوں یا گماشتوں کو یہ حق نہ ہو گا کہ وہ ان کو اپنا محکوم سمجھ کر اپنے کسی ذاتی حکم کی تعمیل کے لیے مجبور کریں ، صوبہ اہواز کا خراج حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو امیر معاویہ پہنچاتے رہیں گے، کوفہ کے بیت المال میں جس قدر روپیہ اب موجود ہے، وہ سب امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی ملکیت سمجھا جائے گا، وہ اپنے اختیار سے اس پر جس طرح چاہیں گے تصرف کریں گے، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بنو ہاشم کو انعام و عطیہ میں دوسروں پر مقدم رکھیں گے۔ اس عہد نامہ پر عبداللہ بن الحارث بن نوفل اور عمروبن ابی سلمہ وغیرہ کئی اکابر کے دستخط بطور گواہ اور ضامن کے ہوئے، جب یہ صلح نامہ مرتب ہو کر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس مقام انبار میں پہنچا، تو وہ بہت خوش ہوئے، وہاں سے محاصرہ اٹھا کر اور قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کو آزاد چھوڑ کر کوفہ کی طرف روانہ ہوئے، قیس بن سعد رضی اللہ عنہ بھی اسی روز شام کو مع اپنے ہمرائیوں کے کوفہ میں پہنچ گئے، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کوفہ کی جامع مسجد میں پہنچ کر امام حسن رضی اللہ عنہ اور اہل کوفہ سے بیعت لی، قیس بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیعت سے انکار کیا اور مسجد میں نہ آئے، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس بھی ایک سادہ کاغذ پر اپنی مہر اور دستخط ثبت کر کے بھیج دیا اور کہلا بھجوایا کہ جو کچھ تمہاری شرطیں ہوں اس پر لکھ لو مجھ کو منظور ہوں گی، انہوں نے صرف اپنی اور اپنے ہمراہیوں کی جان کی امان چاہی، مال وغیرہ مطلق طلب نہ کیا، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فوراً ان کی شرط کو منظور کر لیا، اس کے بعد انہوں نے اور ان کے ہمراہیوں نے بھی آ کر بیعت کر لی۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے بھی بیعت سے انکار کیا، سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے اصرار ہوا تو سیّدنا حسن نے معاویہ رضی اللہ عنہما سے کہا کہ آپ حسین رضی اللہ عنہ سے اصرار نہ کریں ، آپ کی بیعت کرنے کے مقابلہ میں ان کو اپنا فخر عزیز تر ہے، یہ سن کر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خاموش ہو گئے لیکن بعد میں پھر سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے بھی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیعت کر لی، اس سفر میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ عمروبن العاص رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، انہوں نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ حسن رضی اللہ عنہ سے فرمائش کیجئے کہ وہ مجمع عام کے رو برو ایک خطبہ بیان فرمائیں ، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس رائے کو پسند کیا اور ان کی درخواست کے موافق سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ نے خطبہ ارشاد فرمایا کہ: مسلمانوں ! میں فتنے کو بہت مکروہ رکھتا ہوں ، اپنے جد امجد کی امت میں فساد اور فتنے کو دور کرنے اور مسلمانوں کی جان و مال کو محفوظ رکھنے کے لیے میں نے سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کی اور ان کو امیر اور خلیفہ تسلیم کیا۔