کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 616
المال سے امام حسن رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجتے رہو، تیسری شرط یہ ہے کہ علاقہ اہواز و فارس کا خراج امام حسن رضی اللہ عنہ کو ملا کرے۔ یہ تینوں شرطیں عبداللہ بن عامر نے بطور خود سیّدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی طرف سے پیش کر کے پھر وہ شرطیں سنائیں جو سیّدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عامر سے کہلا کر بھجوائی تھیں ۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھ کو یہ تمام شرطیں منظور ہیں اور سیّدنا امام حسن رضی اللہ عنہ ان کے علاوہ بھی کوئی اور شرط پیش کریں گے تو وہ بھی مجھ کو منظور ہے کیونکہ ان کی نیت نیک معلوم ہوتی ہے اور وہ مسلمانوں میں صلح و آشتی کے خواہاں نظر آتے ہیں ، یہ کہہ کر سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک سفید کاغذ پر اپنی مہر و دستخط ثبت کر کے عبداللہ بن عامر کو دیا اور کہا کہ یہ کاغذ سیّدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے پاس لے جاؤ اور ان سے کہو کہ جو جو شرطیں آپ چاہیں اس کاغذ پر لکھ لیں میں سب کو پورا کرنے کے لیے تیار ہوں ۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کو جب یہ معلوم ہوا کہ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ صلح پر آمادہ ہیں تو وہ ان کے پاس آئے اور اس ارادے سے باصرار باز رکھنا چاہا، لیکن سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ نے ان کی رائے کو پسند نہ فرمایا، وہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے زمانے سے اہل کوفہ اور اہل عراق کو دیکھ رہے تھے، دوسری طرف امیر معاویہ رضی اللہ عنہ انتظام ملکی اور نظام حکومت کی مضبوطی بھی ان کے پیش نظر تھی، لہٰذا صلح کے ارادے پر قائم رہے۔ صلح نامہ: جب عبداللہ بن عامر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا مہری و دستخطی کاغذ لے کر آئے اور تمام پیش کردہ شرائط کا تذکرہ کیا تو سیّدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس شرط کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد میں خلیفہ بنایا جاؤں ، کیونکہ کہ اگر مجھ کو خلافت کی خواہش ہوتی تو میں اسی وقت کیوں اس کے چھوڑنے پر آمادہ ہو جاتا، اس کے بعد اپنے کاتب کو بلایا، اور صلح نامہ لکھنے کا حکم دیا، جو اس طرح لکھا گیا۔ یہ صلح نامہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما بن ابی طالب اور معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے درمیان لکھا جاتا ہے، دونوں مندرجہ ذیل باتوں پر متفق اور رضا مند ہیں ۔ امر خلافت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے سپرد کیا گیا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد مسلمان مصلحت وقت کے مطابق جس کو چاہیں گے خلیفہ بنائیں گے، معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اور زبان سے سب اہل اسلام محفوظ و مامون رہیں گے اور معاویہ رضی اللہ عنہ سب کے ساتھ نیک سلوک کریں گے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے متعلقین اور ان کے طرفداروں سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کوئی تعرض نہ کریں گے، حسن بن علی اور حسین بن علی رضی اللہ عنہم اور ان